عمران خان کی حکومت کے 100 روز مکمل ہو گئے تاحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’تعلقات کار‘‘ قائم نہیں ہو سکے حکومت کی طرف سے کامیابی کے مسلسل دعوے کئے جا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن حکومت کی کسی کامیابی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں حکومت کی جانب سے کامیابیوں کے حوالے سے پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن ، حکومت کی ناکامیاں گنوانے میں مصروف ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الفاظ کی’’ جنگ‘‘ کبھی شدت اختیار کر لیتی ہے کبھی ’’سیز فائر‘‘ ہو جاتا ہے لیکن پچھلے 100روز کے دوران سیاسی محاذ ’’گرم ‘‘ ہے حکومت میں ’ہارڈ لائنر ‘‘ اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بظاہر سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ’’چپ کا روزہ ‘‘ رکھا ہوا ہے لیکن وہ گاہے بگاہے صورت حال پر اپنا نکتہ نظر بیان کرتے رہتے ہیں ان کی بہادر بیٹی مریم نواز سیاسی منظر پر نظر نہیں آرہیں لیکن انہوں نے سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال رکھا ہے اور موثر انداز میں سوشل میڈیا پر میاں نواز شریف کے دور حکومت میں مکمل کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کو اجاگر کر رہی ہیں ۔ مریم نواز کسی بھی وقت دوبارہ میدان عمل میں اتر سکتی ہیں۔ پوری قوم کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں ۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ تعلقات کار کے ماحول میں 10 دسمبر 2018 کو قومی اسمبلی کا چھٹا سیشن شروع ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے قومی اسمبلی میں اب تک پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا تنازعہ نہیں حل ہوا اور نہ ہی مجالس قائمہ کی تشکیل ہو سکی ہے۔احتساب عدالت نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو جوڈیشل ریمانڈ پر کو ٹ لکھپت جیل بھجوا دیا ہے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے دورۂ ایران کے دوران قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے میاں شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دئیے ہیں وہ 10دسمبر 2018ء کو شروع ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرینگے۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔حکومت کے ہر عمل پر اپوزیشن کی جانب سے مریم اورنگ زیب (مسلم لیگ ن) اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر (پیپلز پارٹی) رد عمل دینے کیلئے تیار نظر آتے ہے بلکہ دونوں حکومت مخالفت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔سر دست میاں نواز شریف تین ریفرنسوں میں عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں جب کہ میاں شہباز شریف گئے تو نیب کے پاس صاف پانی کیس کی تحقیقات کیلئے لیکن انہیں آشیانہ ہائوسنگ کیس میں دھر لیا گیا اور پھر انکے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کا ایک اور کیس بنا دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف سرکاری طیاروں کو نجی دوروں کیلئے استعمال کرنے اورلندن میں اہلیہ کے نام فلیٹ ظاہر نہ کرنے کے کیس نیب کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سوئٹزرلینڈ نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی توثیق کر دی ہے ، اب تمام سوئس بینکوںمیں پاکستانیوں کے اکائونٹس کی تفصیلات 4سے 6 ہفتوں میں مل سکیں گی،جرمن حکومت کے ساتھ بھی بینک اکائونٹس کی تفصیلات کی فراہمی کیلئے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے ساتھ بھی معلومات کے تبادلے کے معاہدے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ مرزا شہزاد اکبر نے بتایا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ کا دورہ کر کے آئے ہیں،5 سال سے رکے ہوئے معاملے کو حل کر لیاہے ، پاکستان کے ساتھ معاہدے کی سوئٹزرلینڈ کی پارلیمان نے منظوری دی ہے، معاہدے کے تحت سوئٹزرلینڈ کے بینکوں اور کمپنیوں کی معلومات ملنا شروع ہو جائینگے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ میاں نواز شریف نے 25 کروڑ روپے ذاتی دوروں پر خرچ کئے ہیں ،25نجی دوروں کیلئے وی وی آئی پی ایئرکرافٹ کے استعمال کا کیس بھی نیب کو بھجوا دیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ زرداری صاحب کا پرانا سوئس کیس سابق اٹارنی جنرل کے خط پر بند ہو گیا ہے ،سوئٹزلینڈ کے ساتھ معاہدے میں تاخیر پر نیب تحقیقات کر رہا ہے،تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا اس بارے میں کون ملوث تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتہ چیدہ چیدہ اینکر پرسنز کو دیئے گئے انٹرویو میں جہاں آئندہ 10 روز میں وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا عندیہ دیا ہے وہاں انہوں نے قبل از وقت انتخابات کرانے کی بات کر کے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ انکے اس بیان پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ بیان قرار دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے قبل از وقت انتخابات کا خیر مقدم کر کے جارحانہ انداز میں سیاسی کھیل کھیلا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن ہر وقت عام انتخابات کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئے ابھی 100 دن ہی ہوئے ہیں، انکی جانب سے قبل از وقت انتخابات کرانے کا عندیہ دیا جانا ایک ایسا سیاسی فیصلہ ہے جو تحریک انصاف کی پوری سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مارچ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسی طرح کا قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا جو بالآخر ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا تھا، لہذا عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کی بات تو کر دی لیکن اب تحریک انصاف نے اس بارے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہے اور قبل از وقت انتخابات کی کے انعقاد کی مختلف تاویلیں پیش کر رہی ہے۔
پچھلے کئی ماہ سے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار جہاں ’’ جوڈیشل ایکٹوزم‘‘ کے تحت معاشرے میں ہونے والی خرابیوں کا ازخود نوٹس لے رہے ہیں، وہاں انہوں نے ملک میں مستقبل قریب میں پانی کی ممکنہ قلت سے پیدا ہونیوالے بحران کے حل کیلئے نئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے چندہ مہم شروع کر رکھی ہے وہیں پاکستان میں آبادی کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خطرناک صورتحال کے بارے میں لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام 'ملک میں بڑھتی آبادی پر توجہ ' کے عنوان پر منعقدہ ایک سمپوزیم کا اہتمام کیا ہے۔ قبل ازیں چیف جسٹس پانی کی قلت پر بھی ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کر چکے ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ آبادی کے مسئلے پر حکومت اور عدلیہ سرجوڑ کر بیٹھی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں تا ہم باور کیا جاتا ہے کہ ملک میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان کچھ ایشوز پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کا مظہر سمپوزیم میں ہونے والی وزیراعظم اور چیف جسٹس کی تقاریر ہیں، وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نظام عدم کے ضمن میں پارلیمنٹ میں 6 نئے قوانین متعارف کرا رہی ہے ، حکومت قانون سازی کے ذریعے پرانا نظام عدل تبدیل کرنا چاہتی ہے لہٰذا حکومت نے ابتدائی 100 روز میں ہی نئی قانون سازی تیار کرلی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ ’’میں پہلا وزیرِ اعظم ہوں جسے چیف جسٹس نے دعوت دی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ریاستِ مدینہ کی کامیابی کی بنیادی وجہ قانون کی حکمرانی کو قرار دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومتوں نے اس لیے یہ مسائل حل نہیں کیے کیونکہ وہ حکمران اپنے 5 سال کے دورِ اقتدار کا سوچتا تھا اس لئے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔پاناما پیپرز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ادارے کسی اعلیٰ شخصیت کے خلاف کام نہیں کرتے تھے، تاہم سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ ایک موجودہ وزیرِاعظم کو احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے پاناما کیس کو نئے پاکستان کی بنیاد قرار دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارا کنٹریکٹ لاء 1872 کا قانون ہے، اس قانون کو 2018 میں بھی اپلائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے۔ سمپوزیم میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے ’’ریاست مدینہ‘‘ کے قیام کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو سلام پیش کیا ۔ انکے اس اقدام پر سیاسی اور دینی حلقوں میں جہاں داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں وہاں انکی ذات پر تنقید کے تیر بھی چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مدینہ کی ریاست بنانے والا اللہ ہے حکمران کی نیت سے بڑا فرق پڑتا ہے، یہاں مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں اور وہ پہلے وزیراعظم ہیںجنہوں نے مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ شاید مولانا طارق جمیل اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ماضی میں متعدد سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے منشور میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ماضی میں مختلف حکومتوں کی جانب سے کئے جانیوالے اعلانات کا اعادہ ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے سپریم کورٹ میں اپنے خلاف درج مقدمہ کے بعد وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ پیش کر دیا ہے جسے عمران خان نے فوری طور پر قبول کر لیا ہے۔ یہ گڈ گورننس کے بارے میں عملاً ایک مثبت اقدام ہے، ممکن ہے۔ اعظم سواتی کا استعفیٰ آنے والے دنوں میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024