جون 2018ء کی ایک گرم شام معروف تجزیہ کار وکالم نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کاپیغام آیا فوراً ملنے آجائو ،انکے گھر پہنچا تو اپنے ڈرائنگ روم کم اسٹڈی میں میراانتظار کررہے تھے ملتے ہی کہنے لگے مجھے نگران وزیراعلیٰ مقررکیاجارہاہے اورمیں چاہتاہوں کہ تم بطور نگران وزیراطلاعات میرے ساتھ کام کرو،میں نے ان سے مودبانہ گزارش کی۔ اگروزیربنانا ہے تو کوئی آسان محکمہ دے دیں تو مسکرا کرکہنے لگے اس وزارت کیلئے تمہارا انتخاب میں نے سوچ سمجھ کر کیاہے بس تم حلف اٹھانے کیلئے تیاری کرو ،چندروز بعد نگران وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری کی کابینہ کی چھ وزراء نے حلف اٹھایا جس میں مجھے اطلاعات وثقافت کاقلمدان سونپ دیاگیا چندروز بعد مزید چاروزراء نے حلف اٹھایا یوں دس رکنی نگران کابینہ مکمل ہوگئی۔بطور انفارمیشن منسٹر میں نے اپنے کام کاآغاز ڈی جی پی آر آفس کے دورے سے کیا اوراگلے چندروز میں مختلف چینلز اوراخبارات کے دفاتر خود جاکر سینئر صحافیوں اورسٹاف سے ملاقاتیں کیں۔
پنجاب خصوصالاہور کے صحافتی حلقے میرے لئے اجنبی نہیں تھے جہاں بھی گیا مالکان سے لیکر کارکنان تک سب نے پیار دیا اورہرممکن تعاون کیایہاں تک کہ بعض اکھڑ مزاج صحافیوں نے بھی ہاتھ ہولارکھا بہت جلد مجھ پر آشکارہوگیا کہ اطلاعات کی وزارت کاکسی بھی حکومت کوکامیاب یاناکام بنانے میں کردار سب سے اہم ہوتاہے۔
نگران وزیراعلیٰ اورانکی کابینہ کے تمام وزراء اپنے شعبوں کے ماہر اورذاتی مفاد سے بالاترہوکر ملک کیلئے کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار تھے اورسب کاصرف ایک ایجنڈا تھا کہ اپنے محدود وقت میں عوام کی بہبود کیلئے جتنا مینڈیٹ ملاہے اسکے مطابق لوگوں کو ہرممکن ریلیف دیاجائے اورصوبے میں آزاد شفاف اورپرامن انتخابات کیلئے کام کیاجائے۔
ہمیں افسوس رہے گا کہ ان چند ماہ میں عوام کیلئے کچھ زیادہ نہ کرسکے کیونکہ وقت کم تھا اورحکومتی خزانہ خالی تھا مگر اچھی گورننس کے ذریعے ہم نے خلوص دل سے کوشش کی کہ صوبے کے عوام کی مشکلات کوکم کیا جاسکے۔ ہمارے دورمیں الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق متعدد اعلیٰ انتظامی عہدوں پر ردوبدل کیاگیا اور میں نے بھی اپنی وزارت کے چند متنازعہ افسران کے تبادلے کئے مگر دوران وزارت میرا موقف ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ سرکاری ملازمین حکومت کے ملازم ہوتے ہیں اورجو بھی حکومت وقت ہوتی ہے انتظامی اورسرکاری مشینری انکے احکامات پر عمل کرتی ہے اسلئے ہرسرکاری افسرکوشک وشبے کی نظر سے دیکھنا مناسب نہیں البتہ ذاتی ملازم بن کر حکمرانوں کے تلوے چاٹنے والوں کا احتساب ضرورہوناچاہیے۔
اہم ترین وزارت اور وزیراعلیٰ کی قربت کی وجہ سے اختیارات کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی مگر میری ہرممکن کوشش تھی کہ اپنے تعلقات بڑھانے یادوسرے مفادات حاصل کرنے کے بجائے عوام کی خدمت کی جائے۔بہاولپور میں ریت کے طوفان میں بھٹک کر ہلاک ہونیوالی تین بچیوں کے لواحقین کی مالی امداد کیلئے آواز میں نے بلند کی ،فیصل آباد میں قتل ہونیوالی معصوم بچی اوربس ہوسٹس کے گھر جاکر غمزدہ خاندانوں کی دادرسی کی اورانہیں انصاف کی یقین دہانی کرائی۔
لاہور میں تاریخ کی سب سے تباہ کن بارش ہوئی ، واسا کے اعلیٰ افسران اورکمشنر لاہور کے علاوہ میں واحد حکومتی وزیرتھا جو صبح سے شام تک پانی میں ڈوبے علاقوں میں موجود رہا،لکشمی چوک کئی فٹ پانی میں ڈوبا ہواتھا۔ تیزبارش کے دوران ایک شخص اپنی بیٹی کے ہمراہ بند موٹرسائیکل دھکیلتا ہواآیا اورتقریباً روہانسا ہوکر کہنے لگامیری بیٹی کاانتہائی اہم پرچہ ہے مگر ہم کالج تک نہیں پہنچ سکتے،میں نے فوراً واسا کی جیپ میں باپ بیٹی کو کالج بھجوایا اورانکی موٹرسائیکل واسا کے کیمپ میں کھڑی کروائی ،شام میں مال روڈ پر پڑنے والے گڑھے کودیکھنے عمران خان آئے جبکہ وزیراعلیٰ نے بھی اس جگہ کادورہ کیا،اس موقع پر تمام سرکاری مشینری اورمیڈیا وہاں موجود تھا مجھے ایک سرکاری افسر نے چمچماتے لانگ بوٹ پیش کئے جو میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردئیے،ایک روز دفتر جانے کی تیاری کررہاتھا تو شریک حیات جوقریبی بازار سے خریداری کرکے واپس آئیں تھیں۔ تقریباً چیختے ہوئے انتہائی غصے میں کہنے لگیں آپکو معلوم ہے سبزیوں اورٹماٹر ،پیاز کی قیمت کتنی بڑھ گئی ہے اورآپکی حکومت کچھ نہیں کررہی ،میں سیدھا وزیراعلیٰ کے پاس گیا اورانہیں صورتحال سے آگاہ کیا جسکے بعد حکومتی ادارے اورپرائس کنٹرول آفیسرز متحرک ہوگئے اورچند روز میں ہی قیمتوں کوکنٹرول کرلیا گیا اس دوران میں نے منڈیوں اوراتوار بازاروں کے دورے کئے اورسرکاری ریٹس پر سبزیوں ،پھلوں اورمرغی کی فراہمی کویقینی بنایا،اس موقع پر میڈیا نے بھی ہمارا بھرپورساتھ دیا۔
الیکشن سے قبل میں نے پنجاب کے تمام بڑے شہروں کے دورے کئے اوربریفنگ کے دوران کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اورآر پی اوز،ڈی پی اوز کوغیر جانبداری سے الیکشن کمیشن کے ضابطوں اورکوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق بغیر کسی دبائو کے کام کرنے کی ہدایات دیں اور میں فخریا یہ بات کہہ سکتاہوں کہ 25جولائی کے عام انتخابات انتہائی پرامن ماحول میں ہوئے،الیکشن والے دن میں نے لاہور کے درجنوں پولنگ اسٹیشنز کادورہ کیا اورکہیں بھی ووٹرز یاپولنگ ایجنٹس کی طرف سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ،الیکشن کی رات تمام کیئر ٹیکر وزراء 8کلب روڈ پر وزیراعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر انتخابی نتائج ٹی وی پر دیکھتے رہے،اس موقعہ پر ایک وزیر نے وزیراعلیٰ پروفیسرحسن عسکری سے شکوہ کیاکہ کم ازکم آج تو کھانے میں کنجوسی نہ برتتے اورایک آدھی ڈش گوشت کی رکھوادیتے،جس پر قہقہ بلندہوا۔چندروز بعد نومنتخب حکومت نے حلف اٹھالیا لیکن ملکی سیاست کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقعہ تھا کہ نگران وزیراعلیٰ اورتمام وزرائ کو اقتدار سے علیحدگی کا رتی بھر بھی ملال یا افسوس نہ تھا۔ بلکہ خوشی تھی کہ کسی مالی یا انتظامی اسکینڈل کے بغیر احسن طریقے سے اپنے فرایض سر انجام دینے کے بعد نئی منتخب حکومت کو اقتدار سونپ دیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024