ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندہن ہیں جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان عوامل کا امتزاج ابھرتی معیشتوں سے ہٹ کر خود امریکہ کے اپنے اندر سے پیدا ہوگا۔ریمنڈ ڈالیو، جو ایک بلین ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہیں، ان کی شہرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ممتاز فنڈ مینیجر ہیں جو دنیا کے سو امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 2008 کے بحران کی قبل از وقت پیشین گوئی کردی تھی۔ ڈالیو نے حال میں یہ پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ ایک بڑے مالی بحران سے دو سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کریگا کیونکہ امریکہ اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا جبکہ اس کی عالمی مانگ میں زبردست کمی ہونے والی ہے۔
جب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہوگی تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں، گرنا شروع ہوجائیگی یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکہ میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائیگا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Parity power) قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔یہ سب کچھ کیونکر ہوگا؟ گذشتہ سال صدر ٹرمپ نے ٹیکسوں میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس چھوٹ (tax cut) کا اعلان کیا تھا۔ اس چھوٹ سے ٹیکس دہندگان کو آئندہ دس سال میں5.5 ٹریلین ڈالر یا، کچھ اور اندازوں کے مطابق، اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ چھوٹ بجٹ خسارے کا باعث بنے گی۔ان مراعات کے عوض صدر ٹرمپ نے ایسی کوئی تجاویز نہیں دیں جو بجٹ کے اس خسارے کو پورا کردیں۔ ان کی پارٹی کا موقف یہ رہا ہے کہ ٹیکسوں کی کٹوتی سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی جس سے ترقی ہوگی جو بالآخر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ سے ہونے والی بچت اسقدر معاشی ترقی کو فروغ نہیں دیگی کہ اس سے ہونے والی ٹیکسوں کی آمدنی میںاتنا اضافہ ہو جو تقصان کو پورا کردے۔ ایک ایسے ٹیکس نظام میں جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہو کہ ایک متمول ٹیکس گزار اپنی بڑھتی آمدنی کا ایک بڑھتا حصہ بصورت ٹیکس ادا کریگا جبکہ ٹیکسوں کی آمدنی عوامی فلاح بہبود پر لگائی جائیگی، وہاں اتنی بڑی چھوٹ متمول ٹیکس گزاروں کو زیادہ فائدہ پہنچائیگی اور ملک میں تقسیم دولت کو ان کے حق میں کردیگی۔ ڈالیو کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی دی ہوئی ٹیکس چھوٹ کے اثرات 18 مہینوں میں زائل ہوجائینگے، جبکہ سوشل سیکیورٹی اور پنشن کی بڑھتی ذمہ داریوں کے سامنے ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہوگی۔
دوسری جانب شرح سود میں اضافہ ہونے سے مجموعی قرضے اور اس پر سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوگا اور یوں بجٹ کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ جائیگا (واضح رہے کہ امریکہ کا مجموعی قرضہ پہلے ہی اس کی آمدنی کا 108 ہوچکا ہے) ایسی صورت میں ترقی کے عمل میں زبردست کمی واقع ہوگی۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ "حکومت کو بڑی مقدار میں بانڈز فروخت کرنا پڑینگے اور امریکی عوام اتنی بڑی مقدار میں بانڈز نہیں خرید سکتے۔ لہذا مرکزی بینک کو (بانڈز خریدنے کیلئے) نوٹ پرنٹ کرنا پڑینگے تاکہ خسارے کو پورا کیا جاسکے لیکن یہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کا باعث ہوگا"۔
در حقیقت یہ ایک بڑا خوفناک منظر ہے۔ جس بات کا ذکر یہاں ڈالیو نے نہیں کیا وہ یہ ہے کہ نہ صرف امریکی عوام بانڈز نہیں خرید سکیں گے بلکہ دنیا میں امریکہ کے بانڈز کے خریدار نہیں ہونگے۔ جس کی وجہ سے مرکزی بینک کو نوٹ چھاپ کر حکومت کو قرضے دینے پڑینگے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی رزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کیلئے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کریگا۔ لیکن جب1971 میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور ڈالر سونے تبادلے کا وعدے ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا کیونکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بینکوں میں رکھنا محفوظ تصور کیا۔ سوویت یونیں کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی اور خطرہ باقی نہ رہا۔ دیوار برلن کے انہدام اور عالمگیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو چار چاند لگا دیے۔لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے جبکہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکہ کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ یورپ نے بھی خود کو امریکہ سے دور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔
ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔اس پس منظر میں ڈالیوکا کہنا ہے کہ انہیں دو باتوں کا خوف ہے: ایک یہ کہ آئندہ بحران دولت کی تقسیم میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی موجودگی سے معاشرے میں تناؤ بڑھ گیا ہے، لہذا اگلا بحران 2008 کے مقابلے میں بڑے سماجی تصادم کا باعث بنے گا۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں کے پاس بحران سے نمٹنے کیلئے کم طریقے اور اختیارات ہونگے کیونکہ شرح سود ابھی بھی کم ہے لہذاماضی کی طرح کوئی حل بھی میسر نہیں ہوگا۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ وہ پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ "کاروباری چکر‘‘ (Business Cycle) ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ قرضوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور ناقابل برداشت سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ کاروباری چکر میں جب سمٹنے کا مرحلہ آتا ہے تو دیوالیہ پن ہر طرف پھیلنے لگتا ہے اور مالیاتی ادارے ڈوبنے لگتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر مجموعی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کی کوششیں جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیکس کی چھوٹ دے کر کیا ہے وہ ناگزیر نتائج کو موخر ضرور کرتے ہیں لیکن ان میں بالآخر ابتری کا باعث ہوتے ہیں۔
ڈالیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرضوں کا بحران کیا اثرات مرتب کریگا اس کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس سے نمٹنے کیلئے کیا طریقہ کار اپنایا جارہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ اگلے بحران سے نمٹنے کیلئے ایک نئی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں ایک صدراتی کونسل قائم کی جائے جو صدر، اسپیکر، سینٹ کے قائد اکثریت اور مرکزی بینک کے چیرمین پر مشتمل ہو اور جس کے پاس اس بحران سے نمٹنے کیلئے مکمل اختیارات ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجوہ قانونی ڈھانچا آمدہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے مطلوبہ گنجائش فراہم نہیں کرتا۔اس سلسلے کے اختتام پر ہم چند گزارشات رکھنا چاہتے ہیں جیسا ہم کہہ چکے ہیں قرض کا معاہدہ اپنی تعمیر میں ایک خرابی کا باعث ہے اور اس سے بہر صورت تباہ کن نتائج مرتب ہوتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں سرمایہ داری کا نظام بھی اپنے اندر خرابیِ صورت کا حامل ہے۔ جبتک معاشرے میں باہمی اعتماد، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے احساسات پیدا نہیں ہونگے انسانی معاشرہ جنگل کے مناظر پیش کرتا رہیگا۔ ترقی کی ہوس، ذاتی منفعت کی فوقیت، غیر ضروری مقابلے کا رجحان، اجارہ داری کے حصول کی کوششیں اور کمزوروں کو دبانے کی خواہش وہ جذبے اور محرکات ہیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ نہیں بنائینگے اور بد امنی، جنگیں اور معاشی بحران وقتاً فوقتاً دنیا کو بے چین رکھیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024