فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں افسوسناک تصادم‘ ایک کارکن کی ہلاکت اور خانہ جنگی کا خطرہ
تحریک انصاف کے پلان سی کے تحت پیر کے روز فیصل آباد میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے دوران حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور پولیس‘ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مابین مختلف مقامات پر جھڑپوں‘ پتھراﺅ اور فائرنگ کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کا ایک کارکن جاں بحق اور دو پولیس اہلکاروں سمیت ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے مشتعل کارکن اپنے جاں بحق ہونیوالے کارکن کی نعش اٹھا کر سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے ڈیرے پر لے آئے جہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں کسی بڑے تصادم کے خطرہ کے باعث حالات مزید کشیدہ ہوئے تاہم پی ٹی آئی کی مقامی قیادتوں نے حالات کو بھانپ کر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرحوم کارکن کی لاش اسکے گھر بھجوادی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے فیصل آباد کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو فوری طور پر کشیدگی پر قابو پانے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی فیصل آباد میں ہوائی فائرنگ کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بنی گالہ اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے پولیس گاڑیوں پر کھڑے ہو کر پی ٹی آئی کے کارکنوں پر پتھراﺅ کیا اور گولیاں برسائیں جس سے ہمارے چار کارکن شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ لاہور کو بند کرکے دکھائیں گے۔ انکے بقول پاکستان میں جمہوریت ہے تو پرامن احتجاج ہمارا حق ہے‘ ہم صرف انصاف اور جمہوریت مانگتے ہیں۔ انہوں نے فیصل آباد جا کر اپنے کارکنوں کے قتل کی ایف آئی آر خود درج کرانے کا اعلان بھی کیا جبکہ سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے فائرنگ کرنیوالے شخص سے مسلم لیگ (ن) اور پولیس کی لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ اس واقعہ کی فوٹیج حاصل ہو گئی ہے جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔
عمران خان نے گزشتہ سال کے انتخابات کی مبینہ دھاندلیوں کو بنیاد بنا کر سسٹم کی اصلاح کی جس تحریک کا اعلان کیا‘ اس کا یقیناً انہیں حق حاصل تھا۔ اگر وہ سسٹم کی اصلاح کی مثبت سوچ کے تحت اپنے احتجاجی پروگرام تشکیل دیتے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا مگر انہوں نے اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے 14 اگست سے تشدد اور گھیراﺅ جلاﺅ کے عناصر شامل کرکے لانگ مارچ اور پھر پارلیمنٹ ہاﺅس اسلام آباد کے باہر دھرنے کی شکل میں جس احتجاجی سیاست کا آغاز کیا وہ شروع دن سے ہی ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے پر منتج نظر آتی تھی۔ بدقسمتی سے اس سے قبل ماڈل ٹاﺅن لاہور میں ادارہ منہاج القرآن پر فائرنگ کا سانحہ بھی رونما ہو چکا تھا جس میں دو خواتین سمیت منہاج القرآن کے 14 کارکن جہاں بحق ہوئے تو اس واقع سے عمران خان اور طاہرالقادری کی تشدد اور گھیراﺅ جلاﺅ کی سیاست کو تقویت ملی اور ان قوتوں کو بھی اس سیاست میں ڈکٹیٹ کرنے کا موقع مل گیا جو جمہوریت کو کسی صورت چلنے نہ دینے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہرالقادری گزشتہ ایک ماہ سے اس سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں مگر ساڑھے تین ماہ سے جاری عمران خان کی دھرنا سیاست نے قومی سیاست کا چلن ہی نہیں بگاڑا‘ امور مملکت کی انجام دہی بھی مشکلات میں ڈال رکھی ہے‘ شہریوں کے معمولات زندگی بھی دشوار کررکھے ہیں اور قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ بھی روک رکھا ہے۔ انہوں نے 30 نومبر کو پاکستان کے تین شہروں اور بھر پورے ملک کو بند کرنے کی جس احتجاجی تحریک کا اعلان کیا‘ جس کی تاریخوں میں انہیں بعدازاں ردوبدل کرنا پڑا۔ اس اعلان کردہ تحریک کے انداز سے ہی ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کے آثار نظر آگئے تھے۔ حکومت نے اگرچہ عمران خان کی 30 نومبر تک کی دھرنا سیاست میں عمران خان کے جارحانہ انداز‘ بلاثبوت الزام تراشی اور بدتمیزی کلچر کو ہوا دینے کے باوجود صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور دھرنے کے شرکاءکے پارلیمنٹ ہاﺅس اور پی ٹی وی پر حملہ آور ہونے کے باوجود اس تحریک کو دبانے کیلئے ریاستی مشینری کے استعمال سے گریز کیا مگر عمران خان کے پاکستان بند کرنے کے اعلان پر حکومت کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا اور اس نے اس تحریک کو طاقت کے زور پر کچلنے کی پالیسی اختیار کرلی اور بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے فیصل آباد کے پروگرام کے حوالے سے وزیرمملکت عابدشیر علی اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی شہہ پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے بھی تصادم کی پالیسی اختیار کرلی جس کا آغاز اتوار کے روز ہی کردیا گیا تھا۔ جب میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے پی ٹی آئی کے ساتھ تصادم کیلئے منظم ہونے کی رپورٹیں آئیں تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اسی وقت حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے مقامی قائدین کو تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے سختی سے روک دینا چاہیے تھا۔ اگر حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہوتا تو یقیناً گزشتہ روز فیصل آباد میں ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی نشاندہی کرنیوالے افسوسناک واقعہ کی نوبت نہ آتی جبکہ عمران خان کی سیاست کا تو ایجنڈا ہی یہی ہے جس کی تکمیل کیلئے فیصل آباد کے واقعہ کی صورت میں حکمران مسلم لیگ (ن) نے خود پی ٹی آئی کی معاونت کی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ میں پی ٹی آئی کے چار کارکن شہید ہوئے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے ایک کارکن کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے اور اس سے بھی مسلم لیگ (ن) اور پولیس کی لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے مگر فیصل آباد کے اعلان کردہ پی ٹی آئی کے پروگرام سے دو روز قبل ہی جس طرح پولیس کی جانب سے پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے بھی اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا‘ اسکی روشنی میں گزشتہ روز کا افسوسناک سانحہ بعیداز قیاس نہیں تھا۔
بے شک تحریک انصاف اپنے اعلان کیمطابق فیصل آباد کو بند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز بیشتر تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر بھی کھلے رہے‘ معمول کیمطابق ٹریفک بھی رواں دواں رہی اور تاجر اور دوسرے کاروباری طبقات بھی معمول کےمطابق اپنے کاروباری دفاتر اور مارکیٹوں میں آگئے جبکہ اندرون ملک کے روٹوں پر مسافر بسیں بھی معمول کیمطابق آتی جاتی رہیں مگر مسلم لیگ (ن) کی اختیار کردہ اپنی پالیسی کے تحت پی ٹی آئی کے مظاہرین کارکنوں کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرکے عمران خان کی فیصل آباد کی ناکامی کو حکومت نے خود ہی انکی کامیابی میں بدل دیا ہے جس کے باعث وہ اب یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ 15 دسمبر کو لاہور بند کرکے دکھائیں گے۔ اگر حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شروع دن سے یہ سمجھ آگئی تھی کہ عمران خان تشدد اور انتشار کی سیاست کے ذریعے ملک اور عوام کو جمہوریت کی منزل سے ہٹانا چاہتے ہیں تو اسے اس سیاست کے جواب میں صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے تھا مگر فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے کشیدگی کو ہوا دے کر عمران خان کی جمہوریت مخالف سیاست کو خود ہی سہارا دے دیا ہے۔ نتیجتاً گزشتہ روز دن بھر فیصل آباد میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مابین جھڑپوں اور پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران عمران خان کی گاڑی پر بھی پتھراﺅ کیا گیاجبکہ اس دوران پولیس نے بالعموم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرکے عملاً مسلم لیگ (ن) کے مقامی کارکنوں کی تشدد کی پالیسی کو تقویت پہنچائی۔
فیصل آباد کے ان افسوسناک واقعات سے مکدر ہونیوالی سیاست اب مزید سیاسی انتشار اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کرتی نظر آرہی ہے جس پر پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بجاطور پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے جاری کردہ ایک بیان کے ذریعے حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں کو صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح ملک کی سلامتی اور سسٹم کی بقاءکیلئے فکرمند دوسرے حلقوں میں بھی فیصل آباد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے فیصل آباد کی انتظامیہ کو کشیدگی ختم کرانے کی ہدایت کی ہے‘ مگر اس رسمی کارروائی سے سیاسی کشیدگی کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اگر عمران خان اپنے سی پلان ایجنڈے کے تحت احتجاجی تحریک کے اگلے مراحل میں سیاسی کشیدگی کو مزید فروغ دینے میں کامیاب رہتے ہیں تو پھر جمہوریت کی گاڑی کے پھر ٹریک سے اترنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی اس لئے اب بھی وقت ہے کہ دونوں جماعتوں کے قائدین ہوش کے ناخن لیں اور تصادم کا راستہ اختیار کرکے ملک اور سسٹم کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ اگر آج سیاست دانوں کی کسی بے تدبیری کے نتیجہ میں ملک جمہوریت سے دور ہوا تو پھر یہ باہم مل کر بھی جمہوریت کی منزل دوبارہ آسانی سے حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اس سیاست کا ملک کو اب تک جتنا نقصان ہو چکا ہے‘ اس کا احساس کرتے ہوئے عمران خان اب تعمیری سیاست کی جانب لوٹ آئیں کیونکہ اب مزید نقصان کا ملک کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔