جمعیت عُلماءاسلام( ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن ہمہ جہت شخصیت ہیں اور ہر دَور میں فعال اور متحرک رہنے اور وقت کے حکمرانوں کا اتحادی بنے رہنے کا فن جانتے ہیں۔ اِن دِنوں یورپی مُلکوں کے دَورے پر ہیں۔ 8 دسمبر کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مولانا کے حوالے سے ایک خبر شائع ہُوئی ہے جِس میں بتایا گیا ہے کہ ”مولانا نے جمعیت کے قائدین مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد خان، مُفتی ابرار احمد اور جناب محمد اسلم غوری سے ٹیلی فون پر کہا کہ ”ڈرون حملے ”رکوائے جائیں۔“ مولانا نے کہا کہ ”وطنِ عزیز پر ڈرون حملے مُلکی سرحدوں کو روندنے کے مترادف ہیں۔“ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اپنے امیر کے خواہش اور ہدایت کے مطابق (اُن کی وطنِ عزیز سے غیر موجودگی میں) جمعیت عُلماءاسلام کے قائدین وطنِ عزیز پر ڈرون حملے کیسے رُکوائیں گے؟
مسئلہ کشمیر اور مولانا فضل الرحمن؟
مولانا فضل الرحمن (وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ) چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے کئی دِنوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بین الاقوامی برادری کو پاکستان کا ہمنوا بنانے کے لئے مختلف یورپی مُلکوں کے دَورے پر ہیں۔ مولانا صاحب نے کِسی یورپی مُلک کو پاکستان کا ہمنوا بنایا یا نہیں؟ فی الحال اِس بارے میں کوئی خبر نہیں آئی۔ مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر جناب آصف علی زرداری کے دَور میں بھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مختلف مُلکوں کے دَورے کئے تھے لیکن ”کافر حسِینہ“ کی طرح مسئلہ کشمیر پر بیرونی ممالک ( خاص طور پر یورپی ممالک) مان کر نہیں دیئے۔ علّامہ اقبال نے نہ جانے کِس موقع پر کہا تھا کہ ”مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی!“
ساحل پر یا سفِینے میں ڈُوبنا؟
امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”حکمران غلط فہمی میں نہ رہیں۔ بُحران ابھی ختم نہیں ہُوا۔ بعض اوقات سفینے ساحل کے قریب بھی ڈُوب جاتے ہیں۔“ در اصل سراج اُلحق صاحب حُکمران کے سفِینے (کشتی) کے ڈوبنے کی بات کر رہے ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان کا سفِینہ ڈُوبنے سے نہیں ڈرا رہے کیونکہ موصوف 25 دسمبر کو ”اسلامی پاکستان“ کا "Road Map" پیش کرنے والے ہیں۔ اپنی مرضی سے ساحل کے بجائے سفِینوں میں ڈوبنے والوں کے بارے میں علّامہ اقبال نے کسی دوسرے انداز میں کہا تھا
”مجھے روکے گا تُو اے ناخُدا! کیا غَرق ہونے سے
کہ جِن کو ڈُوبنا ہو ڈُوب جاتے ہیں سفِینوں میں“
”سُخن ور صدرِ محترم کی نوید؟“
مارچ کے اواخر میں صدر ممنون حسین (اُس وقت) افغان صدر جناب حامد کرزئی سے مذاکرات کے لئے کابل گئے تو صدارتی محل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ ”جناب ممنون حسین ایک سُخن ور صدر ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنی شاعری بھی سُنائی۔ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ دوسری، تیسری اور چوتھی ملاقات ہُوئی تو ہم بہت قریب آ جائیں گے۔“ اِ س لحاظ سے صدر حامد کرزئی دُنیا بھر کے صدور میں پہلے صدر تھے کہ جنہوں نے صدر ممنون حسین کے ”سُخن ور“ ہونے کا انکشاف کِیا۔ اُس کے بعد پاکستان میں یا پاکستان سے باہر صدر ممنون حسین سے مذاکرات میں کسی بھی مُلک کے صدر نے ہمارے محترم صدر سے اپنا ”کلام الملُوک“ سُنانے کی فرمائش نہیں کی۔”اِسے کور ذوقی“ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ ممکن ہے کہ روایت کے مطابق صدر ممنون حسین صاحب کی تقریر بھی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی طرف سے مامور کوئی ”تقریر نویس“ ہی لِکھتا ہو لیکن مَیں نے دیکھا اور پڑھا کہ صدر ممنون حسین کی تقریروں میں کسی نہ کسی مقام پر ”ادبی چاشنی“ ضرور ہوتی ہے جو سابق صدر آصف زرداری کی تقریروں میںنہیں ہوتی تھی۔ حضرت حیدر علی آتش نے کہا تھا
”چاشنی دونوں کی چکّھی ہے جو حق ¾ حق پُوچھئے
اُس لبِ شِیریں سے شِیریں نیشکر کوئی نہ تھا“
7 دسمبر کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے صدر ممنون حسین نے کیا خُوب کہا کہ ”آزمائشوں اور عدم استحکام کے باوجود پاکستان روشن امکانات کی دہلِیز پر آ پہنچا ہے۔“ امکان وجُود کی حالت جِس میں ہونا یا نہ ہونا دونوں کیفِیتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے کسی عاشق نے اپنی محبوبہ سے کہا تھا کہ ”میرے بس میں ہو تو مَیں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاﺅں“ اور جواباً محبوبہ نے اپنے عاشق سے کہا تھا کہ ”میرے امکان میں ہوتا تو مَیں تمہارا مُنہ موتیوں سے بھر دیتی۔“ اقتدار میں آنے سے پہلے سیاستدان اپنے ووٹروں کو اِسی طرح کے ”لارے“ لگاتے ہیں لیکن جناب ممنون حسین تو منتخب صدر ہیں اور انہوں نے ”روشن امکانات“ کی نوِید دے کر عوام و خواص کو خوش کردِیا ہے، جو پاکستان کی دہلِیز (چوکھٹ) تک پہنچ گئے ہیں۔ اب ”روشن امکانات“ کے خورشید کے لئے پاکستان کا دروازہ کھولنا وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کی ذمہ داری ہے۔ جناب صدر نے تو واضح کردِیا ہے کہ
”خُورشید کو حسرت ہے کہ دہلِیز کو چُومے
چمکا ہے ستارا یہ ترے روزنِ در کا“
وزارتِ عُظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے قبل28 مئی 2013 ءکو (یومِ تکبیر) کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں مجاہدِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ”مَیں نے اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوسرے دَور میں ایٹمی دھماکہ کِیا تھا۔ اِس بار غریبوں کی زندگی میں اِنقلاب لانے کے لئے ”معاشی دھماکہ کروں گا۔“ جنابِ وزیرِاعظم کے اِس وعدے کو ایک سال 6 ماہ اور 19 دِن ہو گئے لیکن ”معاشی دھماکہ“ کب ہو گا؟ اِس کے مدھم امکانات ”بھی نہیں ہیں۔ جِس دن ہمارے 8 دسمبر کو ہی جناب اسحاق ڈار نے اے پی این ایس کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ”اگر ہم جمہوریت اور سیاست کے لئے ”مِیثاقِ جمہوریت کر سکتے ہیں تو ”مِیثاقِ مُعِیشت“ کیوں نہیں؟ لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو ”مِیثاقِ مُعِیشت“ کے لئے مُتحد ہونا ہو گا۔ ہے نہ بگلا پکڑنے کی ترکیب؟ ”مِیثاقِ جمہوریت“ اور پاکستان پیپلز پارٹی ¾ دونوں کو فائدہ ہُوا اور پارٹی کی پہلی ¾ دوسری اور تیسرے درجہ کی قیادتوں کو بھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف سے این آر او کے باعث تو خیر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سات جنموں تک دوستی کے عہدوں پیمان ہو گئے لیکن مِیثاقِ جمہوریت اور این آر او سے عوام کو کتنے نفلوں کا ثواب ہُوا؟ اب جنابِ ڈار کے ”میثاقِ مُعِیشت“ پر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں کیسے مُتحد ہونگی؟ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی؟ پھر سُخن ور صدرِ محترم کی پاکستان کی دہلیز تک پہنچنے کی نوید؟