بات ہو رہی تھی عمران خان کی دھرنا سیاست میں ان کے پینترے بدلنے کی، وقت ٹی وی کے پروگرام نیوز لاﺅنج کی ہوسٹ عرفانہ سعید کے استفسار پر میں نے عمران خان کی پینترے بدلتی سیاست کے کچھ حوالے دئیے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس سیاست سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اسی دوران ہمارے لائیو کالر مصطفی صاحب کی ٹیلی فون کال آن ائر ہو گئی جن کا تجسّس تھا کہ صرف خمینی والا انقلاب ہی ہمارا مقدر بدل سکتا ہے۔ میں خود اس امر کا قائل ہوں کہ مفاد پرست اشرافیہ طبقات کا طاری کیا گیا ”سٹیٹس کو“ توڑنے کے لئے اب بے رحم انقلاب کے بغیر بات نہیں بنے گی جس کے لئے امام خمینی کا انقلاب ہی ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتا ہے مگر میرا تجسّس یہ بھی ہے کہ ایسے انقلاب کے پیروکار بھی خمینی کے پیروکاروں جیسے ہونے چاہئیں جو اپنے مقدر کی تبدیلی کے لئے پُرعزم ہونے کے ساتھ ساتھ قاعدے قانون اور ڈسپلن کے پابند بھی ہوں اور شُتر بے مہار بھی نہ ہوں، تبدیلی کا ایجنڈہ یقیناً اپنے مقدر کے ساتھ ساتھ ملک اور معیشت کی بہتری کا بھی ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اگر سلطانی ¿ جمہور کے لئے یہ درس دیا تھا کہ
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ¿ گندم کو جلا دو
سلطانی¿ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
تو اس سے یہ ہرگز مُراد نہیں تھی کہ جس ریاست کے اندر رہتے ہوئے اس کے آزاد وجود کے بل بوتے پر آپ کو سلطانی ¿ جمہور کا حق دیا جا رہا ہے آپ انقلاب اور تبدیلی کے نام پر اس ریاست ہی کو اُکھاڑنے، اُدھیڑنے، نچوڑنے پر گامزن ہو جائیں، ملک کے آئین کو تسلیم کریں نہ کسی قانون کو خاطر میں لائیں، ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے کا چلن اختیار کر لیں اور دل میں ٹھان لیں کہ ہم نے بس من مانی ہی کرنی ہے چاہے اس کے نتیجے میں ملک کی بنیادیں ہی کیوں نہ ہل جائیں، معاف کیجئے، ایسا ایجنڈہ کسی تعمیری انقلاب کا نہیں، افراتفری، انتشار اور قوم کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا ایجنڈہ ہوتا ہے جس کے عمران کی پاکستان بند کرنے کی کال میں سارے عوامل نظر آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس خمینی کا انقلاب تو ہمیں ڈسپلن کی پابندی کا درس دے رہا ہے جبکہ ہم نے ایسا کلچر اوڑھ رکھا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ڈسپلن اور مروجہ قوانین کی پابندی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، ٹریفک سگنل کے اشاروں کو توڑ کر گزرنے سے ہی ہمیں ذہنی تسکین ہوتی ہے، کسی کا حق چھین کر کھانا ہی ہماری بڑائی کی علامت بن گیا ہے اور اپنے قاعدے قانون والے اختیارات کی آڑ میں من مانیاں کرنا ہی ہم نے اپنا استحقاق بنا لیا ہے مگر یہی ہم پانچ چھ فُٹے انسان جب کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو بلا چون و چراں وہاں کے قاعدے قانون کے پابند ہو جاتے ہیں اور یہ محسوس ہی نہیں ہونے دینے کہ قاعدے قانون کی پابندی تو ہماری سرشت میں شامل ہی نہیں ہے۔ تو بھائی صاحب! ہم ایسی سرشت کے ساتھ خمینی والے انقلاب کی بات کرتے بھلا اچھے لگتے ہیں؟
پروگرام ختم ہونے کے بعد جنرل (ر) حمید گل کے ہونہار فرزند عبداللہ گل کی ٹیلی فون کال آ گئی جنہوں نے پہلے تو شکوہ کیا کہ وہ اور جنرل حمید گل صاحب بھی پروگرام میں آپ کے شریک گفتگو ہونا چاہتے تھے مگر آپ کے پروڈیوسر کی مہربانی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ پہلے تو انہوں نے فون اٹنڈ ہی نہ کیا اور جب فون اٹنڈ ہُوا تو انہوں نے قطعی بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ ہاں یہ بے نیازی بھی تو ہمارے ”سٹیس کو“ والے کلچر کا ہی حصہ بن چکی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر عبداللہ گل سے معذرت کی پھر گفتگو کا سلسلہ امام خمینی کے انقلاب کی جانب بڑھ گیا۔ عبداللہ گل کا کہنا تھا اور ان کے بقول جنرل حمید گل کی بھی یہی سوچ ہے کہ ہمیں خمینی والے گرم انقلاب کی نہیں بلکہ نرم انقلاب کی ضرورت ہے جو عام آدمی کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات سے بھی آئین، قانون، ڈسپلن اور میرٹ کی پابندی کرانے کا متقاضی ہوتا ہے۔ خمینی کے انقلاب کی نوبت تو اس لئے آئی تھی کہ ایران کی شہنشاہئیت میں آئین اور قانون کا تصور ہی نہیں، بس شاہ معظم کے کہے ہوئے الفاظ ہی آئین، قانون، عدالت اور انصاف کا درجہ رکھتے تھے جس میں عام آدمی کی حیثیت تو بس کیڑے مکوڑے جیسی تھی جس کا کچلا جانا کوئی واقعہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس ہمارے پاس تو آئین اور اس کے تحت قائم نظام موجود ہے۔ بس ہمیں اس آئین اور اس کے تحت قائم نظام کو فعال بنانے کی ضرورت ہے جس کے لئے نرم انقلاب سے ہی کام چل جائے گا اور خمینی والے گرم انقلاب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
جی یہی میری رائے ہے اور میں تو اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔ ہمارے پاس آئین اور اس کے تحت قائم نظام موجود ہے تو ہمیں بہرصورت اس کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے اس سے باہر کی ہر سوچ ماورائے آئین اقدام کی سوچ ہوتی ہے جو ہم جرنیلی آمرانہ شب خون کی شکل میں چار بار بھگت چکے ہیں اور اس کا ہر بار ملک کی سالمیت کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ ”سٹیٹس کو“ توڑنے کی جدوجہد کرنا الگ بات ہے جو نظام میں رہتے ہوئے بھی آئین و قانون کی عملداری کا چلن اختیار کر کے بھی توڑا جا سکتا ہے مگر آپ آئین اور قانون کو ہی توڑنا شروع کر دیں تو یہ انقلاب نہیں، ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والا انتشار ہے۔ ہاں آپ کو آئین اور قانون میں کوئی خامی نظر آتی ہے اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام عام آدمی کا مقدر سنوارنے کے لئے معاون نہیں بن رہا تو آپ کے لئے مجاز فورم موجود ہے اس میں قاعدے قانون کے تحت آپ پارلیمانی جمہوری نظام کو آئین ہی کے ذریعے اس نظام میں تبدیل کرا لیں جو آپ کی دانست میں عوام کی فلاح اور ملک کے استحکام کا نظام ہو سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی جھگڑا نہیں مگر جب تک ایک آئین رائج ہے، اس کی پابندی ہی ہمارا شعار ہونا چاہئے۔ آپ بداعمال حکمرانوں کی اصلاح کیجئے‘ کوئی آپ کو نہیں روکتا۔ منتخب مجاز فورم پر آ کر حکومتی بے ضابطگیوں کے بخئیے اُدھڑئیے اور اپنے ووٹروں کی نمائندگی کا حق ادا کیجئے مگر آپ جس کشتی پر سوار ہیں اسی میں سوارخ کرنے کے درپے ہیں اور جس درخت کی شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو اکھاڑنے کے لئے زور لگا رہے ہیں تو اسے ملک و قوم کی تعمیر کے ایجنڈے میں کیسے شمار کر لیا جائے۔ آج آپ نے فیصل آباد بند کرنے کے جتن میں ایک دو لاشیں حاصل کر لیں اور پھر خانہ جنگی کی فضا بنا کر سسٹم کی بساط لپٹوانے
کی جانب پیش رفت کی ہے۔ تو معاف کیجئے، ایسے ہی ماحول میں آپ کی پاکستان بند کرنے کی سیاست ملک توڑنے کی سیاست سے تعبیر ہو گی، ہمیں بلاشبہ ”سٹیٹس کو“ توڑنے کی ضرورت ہے مگر کیا یہ مقصد ہم نے ملک کو توڑ کر حاصل کرنا ہے؟ ہرگز نہیں جناب! کیونکہ یہ تو سیدھا سیدھا ہمارے دشمن بھارت کا ایجنڈہ ہے۔ امید ہے جنرل حمید گل اور ان کے صاحبزادے عبداللہ گل سے اگلے اتوار کو پروگرام نیوز لاﺅنج میں اس پر کُھل کر بات ہو گی۔