مدرسے کی درجنوں طالبات کی ایک گھر سے غیر قانونی برآمدگی
کراچی میں مدرسے کی 26طالبات کی ایک گھر سے غیر قانونی برآمدگی اور بعد ازاں دو اور مختلف جگہوں سے 10طالبات کی برآمدگی نے شہر بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ بدھ کے روز نجی چینلز کے ذریعے اس واقعے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ واقعات کی تفصیل یوں ہے کہ مذکورہ طالبات جامعہ سیف الاسلام میں زیر تعلیم تھیں مبینہ طور پر ان کا تعلق باجوڑ سے ہے۔ مدرسے کی معلمہ حمیدہ بیگم کا بھی باجوڑ سے تعلق بتایا جاتا ہے۔ حمیدہ کے بیٹے عمران نے لیاقت آباد کے رہائشی ایوب کو قرض دے رکھا تھا مبینہ طور پر اس کی مالیت ڈھائی لاکھ روپے تھی جس میں سے نصف سے زائد ایوب نے ادا کر دیا تھا۔ سوا لاکھ کے قریب باقی تھا۔ اس رقم کی وصولی پر تنازعہ پیدا ہوا جس پر مدرسے کی معلمہ نے 26طالبات کو ایوب کے گھر بھیج دیا کہ وہ ان کی کفالت کرے۔ اس مدرسے کی 10مزید طالبات جمشید کوارٹرز اور کورنگی کراسنگ سے بھی حمیدہ بیگم کی نشاندہی پر پولیس نے برآمد کی ہیں۔ انہیں وہاں کیوں رکھا گیا تھا۔ اس کی وجہ ابھی تک نہیں بتائی جارہی۔ لیاقت آباد میں ایوب کے گھر طالبات کی پراسرار موجودگی پر ذرائع کے مطابق ایوب نے خود سیاسی تنظیم سے رابطہ کیا جبکہ پولیس کے مطابق اہل محلہ کی اطلاع پر انہوں نے مکان پر چھاپہ مارا۔ طالبات برآمد ہوئیں اور حمیدہ بیگم ان کے بیٹے عمران اور شوہر کے علاوہ ایوب کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے ایوب کی بیوی بچے اُس وقت گھر میں موجود نہیں تھے جب طالبات کو وہاں بھیجا گیا۔ ملزمان سے تفتیش کے بعد واقعے کا پس منظر سامنے آیا ۔
واقعہ میڈیا میں آنے کے بعد سے نہ صرف باجوڑ سے بچیوں کے لواحقین بلکہ پاکستان بھر سے ایسے والدین جن کی بچیاں لاپتہ ہیں، کراچی پہنچ گئے۔ باجوڑ کی سات بچیوں اور کراچی کی ایک بچی کو اُن کے والدین کے ہمراہ روانہ کر دیا گیا ہے۔ باقی بچیوں کو محکمہ سماجی بہبود کے زیر انتظام دارالبنات میں رکھا گیا ۔ یہ بچیاں جن کی عمر 4سے 12سال کے درمیان ہے صرف پشتو زبان سے واقف ہیں۔
اِس واقعے کو اگرچہ لین دین کا تنازعے کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے اور حکومتی اداروں نے معاملے کو حل کرنے کے لئے فوری کوششیں کیں بچیوں کو باجوڑ کے پولیٹیکل ایجنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے جو انھیں ان کے والدیں تک پہنچائے گا لیکن واقعے کی نوعیت نے ہمارے لئے سوچ کے بہت سے در کھول دیئے ہیں۔
قبائلی علاقے کی ان بچیوں کا تعلیم کی غرض سے کراچی میں مقیم ہونا تعجب انگیز ہے۔ وہ علاقے جہاں بچیوں کے اسکول مسمار کر دیئے جاتے ہیں وہاں سے والدین نے اگر دینی تعلیم کے لیے بچیوں کو کراچی بھیجا تو یہ اُن کا مدرسے کی معلمہ پر پختہ اعتماد تھا اور اس امر کا عکاس بھی کہ والدین اپنی بچیوں کو دینی زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ کیا یہ اُن کی سادگی ہے کہ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ جہاں وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کی غرض سے بھیج رہے ہیں وہ مدرسہ رجسٹرڈ ہے، قانونی انداز میں کام کر رہا ہے یا نہیں؟ دوسری طرف جس معلمہ پر والدین نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بچیاں سونپ دیں اُس نے ذاتی قرض کی وصولی کے لیے پرائی بچیاں ایک شخص کے حوالے کردیں کہ وہ ان کی کفالت کرے۔ معلمہ کا تعلق بھی باجوڑ سے بتایا جاتا ہے کیا وہ اس علاقے کی غیرت وحمیت کی روایات سے آشنا نہیں تھیں، انہوں نے پھول سی بچیاں کیسے کسی غیر شخص کے حوالے کردیں ؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس وقت ہر شہری کے ذہن میں اُٹھ رہے ہیں۔ مدرسے کی منتظمہ کے اس اقدام کی وجہ سے دینی مدارس کے متعلق بھی سوال اُٹھ رہے ہیں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم نے اِس موضوع پر جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم اور وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے رکن مفتی نعیم صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایک غیر رجسٹرڈ مدرسے کی انتظامیہ کے غلط اقدام کی سبب دینی مدارس کے خلاف مہم نہ چلائی جائے اور میڈیا اس کا غلط انداز میں پراپیگنڈہ نہ کرے۔ مفتی نعیم نے کہا مدارس کے نظام کو مورود الزام نہ ٹھہرایا جائے شہر کراچی میں 120پر 80گز پر بے شمارغیر رجسٹرڈ اسکول قائم ہیں۔آپ یہ دیکھیں کہ کراچی یوینورسٹی سے بھی اساتذہ کی جانب سے طالبات سے زیادتی کے واقعات سننے میں آتے ہیںتو کسی ایک فرد کی وجہ سے نظام کو غلط قرار دینا درست نہیں۔وفاق المدارس بورڈ کے تحت ہم دیکھتے ہیں کوشش کرتے ہیں غیر رجسٹرڈ مدارس نہ ہو ںمگر بنیادی طور پر یہ حکومت کے دیکھنے کا کام ہے میں میڈیا سے اپیل کروں گا کہ ان دینی اداروں کو بدنام نہ کیا جائے۔ جو مدارس رجسٹرڈ نہیں حکومت ان کو بند کرے۔ ماں باپ غیر رجسٹرڈ اداروں میں اپنے بچوں کو بھیجنے سے گریز کریں۔
جامعہ بنوریہ کے میڈیا ترجمان جاوید صاحب نے مدارس میں طالبات کی دینی تعلیم کے طریقہ کار کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ جامعہ بنوریہ میں1300کے قریب طالبات زیر تعلیم ہیں یہاں دُنیا کے 29ممالک کی بچیاں تعلیم کی غرض سے آئی ہوئی ہیں۔ ادارہ ان کی حفاظت و سلامتی کی مکمل ذمہ داری لیتا ہے۔ مدرسے میں پردے کا انتظام ہے۔ کسی کو کیمرہ اندر لیجانے کی اجازت نہیں جبکہ طالبات سے ملنے کے لیے ان کے والدین کو ادارہ خصوصی پاس جاری کرتا ہے۔ جمعرات، جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل یا دیگر چھٹیوں میں بچیوں کو گھر لیجانے یا اُن سے ملنے کے لیے والدین آتے ہیں تو انہیں اپنا شناختی کارڈ اور پاس دکھانا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا دیگر مدارس بھی بچیوں کے معاملے میں ایسے ہی اقدام کرتے ہیں۔ بچیوں کے والدین سے ان کی رہائش، کتابوں اور کھانے پینے کی فیس وصول کی جاتی ہے۔ ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائش اور حفاظت مستحسن طور پر کرے۔ رجسٹرڈ مدارس نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ جاوید صاحب نے کہا اس موقعہ پر ٹی وی چینلز کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ کرنا چاہئے۔ واقعہ منظر عام آنے پر ایک پرائیویٹ چینل نے اسے اس طرح پیش کیا جیسے کہ بچیاں اغواء کی گئی ہوں یا انہیں اسمگل کیا جارہا ہو۔ اس انداز کی رپورٹنگ دینی مدارس کے خلاف مہم نظر آتی ہے جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں عوام کی ایک کثیر تعداد اپنے بچے بچیوں کودینی تعلیم کی غرض سے مدرسے بھیجنا چاہتی ہے اور ان اداروں پر اعتماد رکھتی ہے۔
سماجی حلقوںنے بھی اس واقعے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔سارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین سارم برنی نے نوائے وقت کو بتایا کہ وہ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رہے ہیں کہ عدالت عالیہ یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے اور اس بات کی تفتیش کی جائے کہ مدرسے کی طالبات کو دہشت گردی یا انسانی اسمگلنگ کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ سارم برنی نے کہا معصوم بچیوں کی متنازعہ برآمدگی نہایت تشویشناک ہے۔ مدرسے کی منتظمہ حمیدہ بیگم پر بچیوں کے لواحقین نے مبینہ طور پر اعتماد کاا ظہار کیا تھا وہ انہیں کس طرح غیر ذمہ داری سے کسی شخص کے گھر بھیج سکتی ہیں۔ کیاوہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کرسکتی تھی…؟۔ سارم برنی نے سندھ حکومت سے معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وفاقی حکومت بھی اس معاملے پر متوجہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ اس مسئلے پر گہری نظر رکھے گا۔ عورت فائونڈیشن کی ڈائریکٹر مہ ناز رحمن نے کہا معصوم بچیوں کے تحفظ اور اُن کی گھروں کو بخیریت واپسی یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے لین دین کے مسئلے پر بچیوں کی سلامتی کو دائو پر لگا دینے کے فعل کی سخت مذمت کی اور کہا کہ حکومت فوری طور پر غیر رجسٹرڈ مدارس کا جائزہ لے۔خاتون لیکچرار ثمینہ فرید نے کہا مدرسے کی طالبات کے مسئلے پر دو فریق وجود میں آگئے ہیں۔ ایک فریق معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اُچھال رہا ہے جبکہ دوسرا فریق اس کی اہمیت کم کرکے معمولی لین دین کا تنازعہ قرار دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے اور مکمل تفتیش کی جائے آخر بچیوں کو لین دین کے تنازعہ میں کیوں استعمال کیا گیا۔
وطن عزیز پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی اور اس سے متعلقہ واقعات کے حوالے سے دُنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے یہاں اِس قسم کے واقعات کا رونما ہونا مزید بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ مذہبی، اخلاقی، انسانی کسی پہلو سے بھی دیکھا جائے تو یہ واقعہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ پھول سی بچیوں کا اس طرح در بدر ہونا ہماری حکومتی انتظامیہ اور تعلیمی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک اسلامی مملکت ہوتے ہوئے ہمارے اسکولوں میں اسلامی تعلیم کی کیا خامیاں ہیں جو قبائلی روایات کے حامل والدین اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنے سے گریزاں ہیں۔ آخر ان کے علاقوں میں حکومتی سطح پر ایسا نظام تعلیم کیوں رائج نہیں کیا جاتا جو اِن کی روایات کے مطابق ہوتے ہوئے انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرے۔ دینی مدارس بلاشبہ فروغ تعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور معاشرے کا ایک طبقہ اُن پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے بچیوں کی ذمہ داری اُنہیں سونپ دیتا ہے، لیکن حکومت ان اداروں کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کر رہی۔ غیر رجسٹرڈ ادارے کس طرح کام کر رہے ہیں؟ ان تمام معاملات کی طرف توجہ دینے کے ساتھ اِس واقعے کا بھی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ نے اِن بچیوں کو محفوظ رکھا ہے خدانخواستہ کوئی سانحہ رونما ہوسکتا تھا آئندہ کے لیے ایسے واقعات رونما نہ ہوں اس کے لئے پیش بندی ضروری ہے۔