لو میرج کرنیوالی خواتین کی درد بھری داستانیں
سال 2014 ء کے دوران لاہور ڈویژن میں 417لڑکیوں نے گھر وںسے بھاگ کر پسند کی شادی کی اور تحفظ کے لئے عدالت سے رجوع کیا۔ان میں سے 90 فیصد نے انٹرنیٹ ،موبائل فون پر انجان اور آوارہ لڑکوں سے دوستی کر کے اپنی زندگی برباد کی اور بعد میں طلاق لینے عدالت آ گئیں، اکھٹے لو میرج کرنے والی تین سہیلیاں طلاق لینے بھی اکٹھے عدالت میں آئیں۔درجنوں لڑکیوں کا تعلق نا م نہاد مخلوط تعلیم والے سکولوں، کالجوں سے ہے۔ والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والے کئی جوڑے چند ماہ کے دوران ہی فاقہ کشی کا شکار ہو گئے، گھر میں ساس بہو، نند اور شوہروں سے لڑائیاں ہونے لگیں تو ان لڑکیوں کو گھر سے نکال دیا گیا،کچھ ورثاء کی جانب سے قتل کئے جانے کے خوف سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئیں اور کچھ قحبہ خانوں پر پہنچ گئیں۔196 لڑکیوں کو ان کے نام نہاد عاشقو ں نے شادی کا جھانسہ دے کر گھر سے بھگایا اور زیادتی کے بعد جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔بعض کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد دوسرے ممالک میں فروخت کر دیا گیا۔اجتماعی زیادتی کا شکار ان لڑکیوں کی تعداد 137 بتائی جاتی ہے۔ان میں سے بعض کو پولیس نے برآمد تو کر لیا مگر اس وقت تک وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی عزت کا جنازہ نکال چکی تھیں۔ مختلف تھانوں میں 1430 لڑکیوں کے اغواء کے مقدمات درج کرائے گئے مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر اپنی مرضی سے گھر سے بھاگیں کچھ نے گھر والوں کے سخت رویہ، ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ کر گھر چھوڑا۔ موبائل،انٹرنیٹ کا غیر ضروری استعمال،بھارتی چینلز کی بھر مار، مخلوط نظام تعلیم اور اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث معزز گھرانوں کی عزت سر بازار نیلام ہوئی۔کئی کیسوں میں لڑکیاں گھر آگئیں اور دولہے جیل چلے گئے۔ مقامی رہائشی (س) نے گھر سے بھاگ کر (ع)سے جڑانوالہ میں نکاح کیا اور میجسٹریٹ کی عدالت میں بیان دیا کہ اسنے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا ۔ ایف آئی آر کے مطابق (س) نابالغ ہے۔اس نکاح کے نتیجہ میں نکاح خواں مولوی ،شادی کے گواہان ، دلہا اور اسکی رشتہ دار خواتین کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ لڑکی کی عمر 18سال سے زائد ہے جبکہ ایف آئی آر کیمطابق 12 سال ہے۔ اسنے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے نکاح پڑھایا ۔ نکاح نامے میں 10ہزار روپے ماہانہ جیب خرچ بھی لڑکی کے لئے لکھا گیا ہے۔ نہ جانے (س)جیسی کتنی لڑکیاں اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی برباد کر چکی ہیں اور (ع)جیسے کتنے لڑکے اور کتنے نکاح خواں اور گواہان جیلوں میں بند ہیں۔صوبائی دارالحکومت کی مختلف عدالتوں کے ذریعے 1456 خواتین کو دارالامان بھیجا گیا جن میں اکثریت پسند کی شادی کرنے والی خواتین کی ہے۔ بعض خواتین بھارتی چینل سے اثر لے کر بے راہ روی کا شکار ہوئیں اور اپنے عاشقوں کے ورغلانے پر گھر بھر چھوڑ بیٹھیں۔ ان میں سے متعدد کو شادی کے بعد شوہروں نے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ دارالامان میں لائی جانے والی ایک خاتون صائمہ نور کو سپیشل مجسٹریٹ ضلع کچہری نے دارالامان بھیجا ۔ صائمہ نے بتایا کہ میرا خاوند مجھ پر تشدد کرتا ہے میری ساس اور سسر بھی مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ بیس سالہ صائمہ کی شادی 3 سال قبل ہوئی تھی اور اس کے کوئی اولاد نہ ہونے پر اسے ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ روزینہ جسے سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ ماڈل ٹاؤن نے دارالامان بھیجا اسنے اپنے چھ سالہ بیٹے اسد کے ہمراہ بتایا کہ میرا خاوند مجھ پر بے پناہ تشدد کرتا ہے میرے خاوند کی پہلی شادی میری بہن زرینہ سے ہوئی تھی زرینہ نے شادی کے کچھ عرصہ بعد خود کشی کرلی۔ اس کے بعد میری شادی بھی اسی شخص سے ہوگئی۔ روزینہ نے مزید بتایا کہ میرے شوہر کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو میں نے عدالت سے رجوع کیا ۔ ایک لڑکی نے نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ چار سال قبل میں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی ۔ ایک اجنبی شخص سے فون پر رابطہ ہوا حالانکہ میرے گھروالوں نے میری منگنی کررکھی تھی مگر میں انجانی فون کال پر محبت کا جرم کر بیٹھی اور گھرسے بھاگ گئی اس نے بتایا کہ میری دو بیٹیاں ہیں جو میرے خاوند کے پاس ہیں اس نے کہا کہ میں نے پہلے خود کشی کا سوچا تھا پھر ارادہ ملتوی کردیا۔ اس نے روتے ہوئے مزید کہا کہ میں اب بہت پچھتا رہی ہوںمجھے اپنی ماں کی بہت یاد آتی ہے مگر میں گھر واپس نہیں جا سکتی۔واپس جانے سے میری چھوٹی بہنوں کی شادی بھی متاثر ہوگی۔ کچھ ایسی خواتین بھی عدالتوں میں آئی ہیں جو شادی شدہ ہونے کے باوجود نام نہاد عاشقوں کے بہکاوے میں آ کر خاوند اور بچوں کو چھوڑ کرظلم کی دلدل میں اتر گئیں۔