درس ِ کربلا
عام طورپر واقعہ کربلا ایک غم انگیز مصیبت ہی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جس پر ہمارا کام آنسو بہانا اور اظہار رنج و ملال کر دینا ہے اور بس… حالانکہ یہ ایک فطری تقاضا انسانیت ہے جس کو بہرحال ہونا ہی چاہئے۔ امام حسینؓ کا بلند نصب العین ہم سے کچھ اور بھی چاہتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنی زندگی کو حسینیؓسیرت کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اگر امام حسینؑ نہ ہوتے اور ان کا جہاد کربلا نہ ہوتا تو دین شریعت کی اصلی صورت ہی رخصت ہو جاتی۔ بادشاہوں کی سیرت سنت الیہہ بنتی، ان کی تقلید و اطاعت معیار سمجھی جاتی۔ یہ امت اسلامیہ کی حقیقت میں ہلاکت ہوتی۔ درحقیقت یہ حق و صداقت، آزادی و حریت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، صبر و استقلال، عزم و ثبات، خودداری و شرافت، امن پسندی و رواداری، ظاف بیانی و انسانی ہمدردی، مساوات و مواسات، ایثار و حسن معاشرت کی عظیم قربانی تھی جو صرف اس لئے پیش کی گئی تاکہ پیروان اسلام کیلئے ایک اسوہ حسنہ قرار پائے۔
موجودہ زمانے میں اگر قومی حالت پر نظر ڈاتی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ قومیت کا صحیح احساس نہیں اور رواداری کے جذبات فنا ہو گئے ہیں۔
یہ افتراق و اختلاف، یہ باہمی روزمرہ کی لڑائیوں کا ہی نتیجہ ہیں؟ صرف رواداری نہ ہونے یا ایثار کا جذبہ مفقود ہونے کا نتیجہ ہیں۔ یہ خودغرضی اور مطلب پروری وہ ہے جس سے افراد امت کے درمیان محبت و یگانگت کے جذبات کمزور اور قومیت کا شیرازہ روزبروز ابتر ہوتا جا رہا ہے۔ قوم میں جوش عمل باقی نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ اجتماعی اور انفرادی تعطل اور رواداری کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے اپنے اندر جوش عمل نہیں اس لئے ہم اپنی بھی ترقی و بہبودی کا کوئی سامان نہیں کر سکتے ہیں۔ صدق دل سے اگر امام حسینؓ کے ساتھ عقیدت ہے تو ان کے نقش قدم پر چلنا فرض ہے۔ سود و زیان کا حساب لگانا بیکار ہے۔ جان رہے یا جائے، ثروت و حشمت حصہ میں آئیں یا نہ آئیں، حق پر فدا ہونا اور باطل کا فنا کرنا یہی پہلا اور آخری زینہ امام حسینؓ کا مذہب ہے۔
اگر امام حسینؓ ایسا نہ کرتے تو ہر شخص دولت، طاقت اور وسائل نہ ہونے کے خیال سے اپنے کو کمزور سمجھ کر باطل پرست بن جاتا اور اس کی بیعت کر لیتا۔اگر امام حسینؓ کی طرح زندہ جاوید ہونا چاہتے ہیں تو ہم کو اپنے خیالات و احساسات سے اپنے حرکات و سکنات سے حق کا اعتراف کرنا چاہئے۔
پانی کی ایک ایک بوند کی خاطر ترسیں مگر ثابت قدم رہیں۔ اپنے عزیز، اپنی گودوں کے پالے بچے اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑیں مگر ہم اف نہ کریں۔ سر قلم ہو، لیکن باطل کے سامنے گرنہ نہ جھکے۔ بھائیوں کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے کمر ٹوٹ جائے، لیکن عزم و ہمت کی کمر سیدھی رہے۔ سر جسم سے جدا ہوکر نیزہ جور و ستم پر پہنچ جائے مگر حق و صداقت کا سرچشمہ بلند رہے۔ ایسا ایثار ہونا چاہئے امام حسینؓ کا نام لینے والے میں کہ اپنے کو مٹا دے اور حق کا ہو رہے۔ اس وقت قوم کو ضرورت ہے خود فراموش حق پرستوں کی۔ امام حسینؓ اپنی روش زندگی سے دعوت دے رہے ہیں کہ آئو میرے قدموں کے نشان پر چلو، حق کیلئے اپنے کو مٹا دو، باطل کا ہمت سے مقابلہ کرو۔
آیئیٖ! آج عاشورہ محرم پر ہم اپنی روح اور اپنے دلوں کا جائزہ لیں۔ آیئے! ہم اپنے قلوب کو لالچ، نفرت، جانبداری، خودغرضی کے جذبات سے پاک و صاف کرکے ان میں انسانیت کے ساتھ محبت و ہمدردی کی لطیف روح بھر دیں۔
ہم خود اپنی ذاتی زندگی میں برائی کا جڑ سے خاتمہ کریں اور صداقت و انصاف کا خون نہ کریں کہ کہیں ایسا کرکے یزید کی حیثیت نہ حاصل کریں۔
٭…٭…٭