میرے حسینؓ کا دور
تاریخ اسلام کاپر سوز واقع جب قیامت سے پہلے کربلا میں خاندان رسولﷺ پر قیامت برپا کی گئی ۔ جس میں نانا کے کندھوں پر سوار ہونے والے شہزادہ رسول ﷺ کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور کربلا کے تپتے ریگستانوں میں خاندان رسول ﷺ کے پھول اور کلیوں کو پیاسا رکھ کر مسل دیا گیا۔ یزید ، فاسق، فاجر، دشمن اسلام نے مسندِ خلافت پر بیٹھ کر اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے خاندان رسول ﷺ پر آخری وار کیا۔سفیر مولا حسینؓ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے ننھے شہزادوں اور بعد ازاں ابن زیاد بدبخت نے انھیں شہید کر کے یزید کی گھنائونی سازش کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے آغاز ِ کربلا تھا۔ شہزادہ رسول ﷺ جب کربلا پہنچے تو تپتے ریگستان کا نام پوچھ کر وہیں پر خیمہ زن ہونے کا حکم دیا۔ مگر آپکی سواری بہت بے چین تھی اسے بھی پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ جناب حسین ؓ کو وہاں سے دور لے جانا چاہتی تھی۔ مگر شاید گرہِ تقدیر کو تدبیر کے ناخن کھولے سے قاصر ہیں ۔ جناب حسینؓ کو معلوم تھا کہ یہی کربلا ہے جہاں تپتے ریگستانوں کو خون سے سیراب کر کے پیارے نانا جان ﷺ کے فرمان کہ: "حسین مجھ سے ہے اور میںحسین سے ہوں"کی تکمیل کر کے نانا ﷺ سے کیا وعدہ نبھانا ہے۔ کربلا میں خیمے لگ گئیء تو جناب حسین ؓ نے آسمان کی طرف دیکھا ہاتھ اُٹھا کر عرض کی "اے اللہ میرے نانا ﷺ کے دین کی حفاظت فرمااور اسے زندہ و آباد رکھ"
تاریخ اسلام میں جنگ بد ر کے دن جب 313کے مقابلے میں ہزار تھے اور دوسرا دسویں محرم الحرام کا دن جب 72مہمانوں کے خون سے پیاس بجھانے کیلئے دشمنان اسلام کا ہزاروں کا لشکر تمام حدیں عبور کر کے دنیا کے لالچ میں جہنم کا ایندھن بننے کیلئے اللہ کے غضب کو بالائے طاق رکھ کر رسول خدا ﷺ کے بچوں پر خنجر چلانے کیلئے تیا رتھا اور وہ بھول چکے تھے کہ"قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے" کربلا کو آباد کرنے والی بستی میں پہلا خیمہ جناب غازی عباس علمدار کا تھا جو ہمیشہ بھائی کی بجائے جناب حسین ؓ کو آقا حسین کہہ کر بلاتے اور جناب حسینؓ انھیں عمر میں چھوٹے ہونے کے با وجود بھائی کہہ کر بلاتے تھے ۔ اسی پہلے خیمے والے غازی نے بی بی سکینہ اور ننھے شہزادے امام علی اصغر کیلئے فرات سے پانی لاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو کٹوا کر آقا حسین ؓکے سامنے جام شہادت حاصل کر کے آقا کریم ﷺ کے حضور پیش ہو کر بتانا تھا کہ ناناﷺ میں کوشش کے با وجود آپکی پیاسی بیٹیوں اور آپ کے ننھے شہزادے امام علی اصغر کو پیاسا چھوڑ آیا ہوں۔
میرے ذہن میں ایک سوال کا جواب مجھے آج تک کسی نے نہیں دیا کہ کلیجے پر خنجر چلانے والے کیا تھے۔ اس کا جواب مجھے محشر میں اس وقت ملے گا جب حسین ؓکے بابا اور حسین ؓکی پیاری ماں کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے نواسے کے خون کا حساب لیں گے ۔ اسی دن پتہ چلے گا کہ ُحبّ رسول ﷺ ہی دین کا رُکن خاص ہے۔ جب رسول ﷺ اور اہل بیت اطہار کی محبت دل سے نکل جائے تو وہ دل ابلیس کا مسکن بن جاتا ہے۔ آج خاندان رسول ﷺ سے محبت کرنیوالا ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا خاندان رسول ﷺ ، جگر گوشہ بتول ؓ ، ننھے علی اصغر اور ہمشکل ِ رسول ﷺ حضرت علی اکبر پر تیروں کی برسات کر کے چھلنی کرنے والے ، تلواروں ، نیزوں کے وار کر کے جنت کے شہزادوں کی گردنیں تن سے جدا کر کے خیموں کو آگ لگا کر میرے آقا کریم ﷺ کی بیٹیوں کی توہین کر کے سرِ حسین ؓ کو نیزے پر چڑھا نے والے ، سواریوں کے اوپر رسولﷺ کی بیٹیوں کو قیدی بنا کر کوفہ و شام کے بازاروں میں گھمانے والے پھر دربار یزید میں لانے والے یہ کیسے دعویدار اسلام ہیں ؟اللہ کریم اور محبوب کریم ﷺ سے محبت کرنے والو دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچو اس بہن کا کیا حال ہوگا جنھوں نے کربلا میں شہادتیں دیکھیں اور پھر خیموں میں لگی آگ اور رات کو شہداء کو سنبھالنے میں لگی رہیں۔ میرے مالک اگر ہمارے آنسو بارش کے قطروں ، سمندر کے پانی ، ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہوں تو تیرے محبوبﷺ کی اولاکا غم کم نہیں کر سکتے ۔ تیرے محبوب ﷺ جن کیلئے کبھی منبر رسول ﷺ سے اُتر آتے۔ کبھی سینے سے لگایا،کندھوں پر بٹھایا انھیں اتنا لاوارث سمجھ کر شہید کیا گیا۔ وہ قلم اور کاغذ بھی روتے ہیں جن پر غم حسین ؓ لکھے گئے ہیں ۔ جن و انس تو کیا چرند و پرند کربلا کی ریت کے ذرات بھی روئے ہوں گے جب تیرے حبیب ﷺ کے بیٹے حسین ؓ کو اولاد اور ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا۔ بیشک اتنا مقدس خون کسی کا نہیں تھا۔ حسین کے خون کا ایک ایک قطرہ زمین پر بھاری ہے۔ آج ہر عاشق رسول ﷺ اور حسین ؓ کا چاہنے والا یہ کہہ رہا ہے :
جس کی خاطر یہ کائنات بنی
ایسا نانا میرے حسین کا ہے
کوئی پوچھے یہ دور کس کا ہے
تم بتانا میرے حسین کا ہے