یوم عاشور: شاید آج رویا ہو فلک
آج دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمان جہاں جہاں آباد ہیں حضرت امام حسینؑ کے غم میںرنجیدہ ہیں۔نبی کریمؐ کے نواسے کی شہادت دین نے حق کا پرچم بلند کر کے باطل کو نابود کردیا۔امام عالی مقام کی شہادت پر باطل نے شادیانے بجائے مگر یہ حق اور صداقت کی فتح تھی باطل کی موت تھی۔
کربلا کے تپتے ریگزار میں امام عالی مقام نے بلا تفریق مذہب و مسلک انسانی اقدار اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔ جابر و فاسق یزید کی بیعت کا دوٹوک الفاظ میں انکار کرکے کلمہ حق کو سربلند کیا۔ امام عالی مقام نے ظلم و زیادتی کے اس ماحول میں بلا کسی خوف و ڈر کے اطمینان قلب سے فرمایا کہ ’’میں موت کو سعادت کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذلت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔‘‘ امام عالی مقام نے محکم و مصمم ارادہ، ہمت و شجاعت، عزم و استقلال کے ساتھ میدان کارزار میں قدم رکھا، اذیت ناک اور دلسوز مصائب و سختیوں کے آگے کبھی جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا۔ امام نے واضح کر دیا کہ اہل حق سر کٹا سکتے ہیں لیکن باطل کے آگے سر جھکا نہیں سکتے۔ اپنی لازوال قربانیوں کے ذریعے انسانیت کے پرچم کو بلند کیا اور امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کو عظیم الشان فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔61 ہجری عاشور کے دن قیام امام حسین ؑکا اختتام نہیں ہوا بلکہ میدان کارزار میں امام عالی مقام نے اس تحریک کو اپنے خون مقدس سے سینچتے ہوئے بام عروج تک پہنچایا، جس کی شعائیں کائنات کے ذرے ذرے پر پڑ گئیں۔وہ وقت بھی آیا کہ امام پر ظلم ڈھانے والے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔امام کے مقابل آنے والا ایک ایک کرداراوراہلکار عبرت کا نشان بن گیا۔ یزیدکے دور کے بعد بھی اس تحریک نے رکنے کا نام نہ لیا بلکہ اس تحریک نے چودہ صدیوں سے حسینی جوان، حسینی لیڈر، حسینی ملت پیدا کرکے یزیدیت اور شمریت کو ہر محاذ پر ناکام و نامراد کر دیا۔ عاشورہ کی یہ تحریک امت اسلامیہ کے لیے کسوٹی بن گئی۔ حسینیت کی صحیح پہچان کروائی اور طاغوتیت، فرعونیت، نمرودیت اور یزیدیت کو ہر دور میں بے نقاب کر دیا۔ محمد علی جوہر نے اس کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا عالم بشریت کیلئے لازوال دانشگاہ بنا، عاشورہ ملت ِخوددار اور بیدار کیلئے ہدف اور مقصد بنا، ظالم کی ہلاکت، ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کی سرفرازی کا باعث بنا۔ تاریخ بشریت میں سفر کربلا کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کیلئے در نایاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سامراجی اور طاغوتی قوتیں اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہیں تو وہ صرف اور صرف پیروی امام حسین ہے۔ امام حسین ؑ کی لازوال قربانی اہل ایمان کے اندر جذبۂ جہاد اور ذوقِ شہادت کو موجزن رکھتی ہے۔ایسی قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جس کا ہرفرد ملت کی خاطر جان قربان کرتے ہوئے شکوہ کناں رہتا ہے کہ اسکے صرف ایک جاں تھی،دسیوں جانیں کیوں نہیں تھیں جن کو وہ اللہ کے حضور قربان کردیتا۔ سانحہ کربلا کو گزرے چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے مگر لگتا یوں ہے کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا، حق و باطل کے درمیان ا ب بھی معرکہ جاری ہے۔ پاکستان بُری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں آیا۔ اس سے نجات کیلئے پاک افواج کے سپوتوں نے بے دریغ قربانیاں دیںجس سے دہشتگرد پاکستان سے راہِ فرار اختیار کرنے لگے۔دہشتگردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا۔پاکستان کے دشمنوں کی کمر توڑ دی گئی۔مگر دہشتگرد آج بھی کسی نہ کسی طور پر سرگرم ہیں۔بلوچستان اور کے پی کے کے قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ایسے واقعات سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔افسوس یہ کہ سہولت کار حکومتی صفوں میں جگہ بنارہے ہیں۔سب سے پہلے ایسے عناصر کا قلع قمع ناگزیرہے۔ان کے سامنے جھکنا نہیں ہے کیونکہ امامؑ نے درس دیا تھا :
سرداد، نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
معاشرے میں کئی برائیاں پنپ رہی ہیں۔جرائم ہورہے ہیں۔انکے خاتمے کیلئے جدوجہد بھی جہاد ہے۔سیاست میں نفرتیں در آئی ہیں۔مخالفت ذاتیات اور دشمنی تک پہنچ چکی ہے۔اسکے آگے بھی بند باندھنے کی ضرورت ہے۔یہ کیسے ممکن ہے؟ میں سمجھتا ہوکہ یہ مقصد قوم میں شعور بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شعور بیدار اور پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے۔تعلیم کے زیور سے نئی نسل کو آراستہ کیا جائے گا تو ہم معاشرتی طور پربلندیوں کی طرف محوِ پرواز ہوسکتے ہیں۔معاشرتی رویے درست نہ ہوئے تو ہم زبوں حالی سے دوچار رہیں گے۔سانحۂ ماڈل ٹائون جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ہم جہل کی پستیوں سے نہیں نکل سکیں گے۔ آئیے امام عالی مقام کی یاد مناتے ہوئے آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں اور برائیوں کے خاتمے اور سچائی کی بجا آوری کیلئے جو بھی ممکن ہے وہ کردار ادا کریں۔آخر میں میں یہی کہوں گا :
آب باراں نہیں ہے قطرہ کہاں سے ٹپکا
آج دسویں محرم ہے شائد رویا ہو فلک