پیغام کربلا
تاریخِ اسلام میں واقعہ کربلا سے ذیادہ دردناک مثال ملنا مشکل ہے۔داستانِ کربلا ابتدائے عشق سے انتہائے عشق کا وہ سفر ہے،جو قربانی کی زندہ مثال ہے ۔امام حْسینؓ نے ناموس رسالت ؐکی حفاظت میں شہادت کا رتبہ پایا لیکن شریعت کا مذاق اْڑانے والے کے ہاتھ میں بیعت نہیں کی ۔محرم کی دس تاریخ کہ جب کربلا کی تپتی زمین پر خانوادہء رسول نے اسلام کی حیات کے لئے اپنی زندگیوں کے چراغ ایسے گل کئے کہ انکی روشنی ہر اندھیرے میں حق کی تلاش کرنے والوں کو آج بھی رستہ دکھاتی ہے،ضرورت اگر ہے تو صرف نیک نیتی اور یقینِ کامل کی۔ نواسہ رسول امام حسین ؑ کی قربانیوں سے پرورش و تربیت پانے والا مسلمان قربانی کے مفہوم سے ہی نا آشنا نظر آتا ہے۔ یہ عظیم قربانی جس میں اطاعت کا پہلو بھی ہے اور شجاعت کا بھی، صبر کا عنصر بھی ہے اور جہاد کا بھی، استقامت کا درس بھی ہے اور وفاداری کا بھی، لیکن پھر بھی مسلمان ان اوصاف سے عاری نظر آتا ہے اور یہی سب سے بنیادی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی مسلمان اور اسلامی حکومتیں اپنے محور سے دور بھٹکتی نظر آ رہی ہیں، حالانکہ منزل بھی واضح ہے اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ۔مظلوم کشمیریوں کا لہو بہانے والے زندہ ہے ۔ امام حْسین ؓ نے جان دے کر بتا دیا کہ جہاد ظالموں کے خلاف ہو تا ہے ۔جہاد کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانے کیلیے نبی پاک ؐکا مشن حْسین ؓ کا مطالعہ کر نا ہو گا۔یزید کی ولی عہدی اور تحت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی دستور اور اس کے مزاج اور اسکے مقصد کی تبدیلی تھی۔
اسلام کا نظام خلافت اتنا قیمتی اثاثہ ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دی جا سکتی ہے ۔ واقعہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کا اور دیگر اہل ایمان کا کردار قابل ذکر ہے وہاں خواتین کا کردار بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔حضرت زینب بنت علیؓ کے خطبے کا مقصد اور یہ آج کی خواتین کے لیے کیسے مشعلِ راہ ہے؟ اسلامی تاریخ میں فرزندانِ توحید نے توحید کا علم سر بلند رکھنے کے لیے بیش بہا قربانیاں پیش کیں وہیں خواتین بھی اس راہ میں مساوی کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ہجرتِ حبشہ ہو یا ہجرتِ مدینہ، مکہ کا پْرفتن دور ہو یا مدینہ کی نو آموز اسلامی ریاست ، گھر بار چھوڑے ، جسمانی تکالیف سہیں، باپ ،بھائی ،بیٹے اور شوہر اللہ کی راہ میں قربان کیے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا بلکہ عزم و ہمت کا پیکر بنی رہیں۔
اس وقت امت مسلمہ جس پْرفتن دور سے گزر رہی ہے اس میں عملی کام یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ان روشن کِرنوں سے اپنی نسلوں کو روشناس کروایا جائے ۔ صفِ اوّل کی ان خواتین میں نواسی رسول سیدہ زینب بنت فاطمہ ؓ کا کردار نمایاں دکھائی دیتا ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیارے بھائی ، اپنے جگر گوشے کہوں میں نہاتے دیکھے لیکن صبر، استقامت اور حیا کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جس تضحیک تذلیل کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور عملی اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین ؑکو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات و رسومات میں اپنا تشخص کھو چکے ہیں اور ہماری سوچ پر جیسے جمود طاری ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سرو کار نہیں۔ جمود بھی ایسا کہ نہ تو اسے کربلا کا پیغام حریت و انقلاب توڑ پا رہا ہے اور نہ ہی استغاثہ حسینی ؓ کی صدا اس پر کچھ اثر انداز ہو رہی ہے۔
امریت و ملوکیت ظلم کار نظام اتنا نا پسندیدہ ہے کہ اسے مسترد کرنا اور اسے بدلنے کے لیے جدو جہد کرنا تقاضائے ایمانی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ فرزندان اسلام وقت کے یزید کے سامنے سیسہ پگھلائیں ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوں۔اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں۔کربلا میں معرکہ حق و باطل تھا۔ جس کا پیغام صبر و برداشت تھا۔ کیا آج ہم صبر کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ مشکلات پہ صبر کرنا سیکھنا ہو گا۔ کسی دوسرے کی سوچ، عمل، طریقہ کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی کربلا کا درس ہے جس سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگیا ں بہتر ہوں گی بلکہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر بھی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔