دس محرم اور اہل کربلا
دس محرم کا دِن نواسہ رسول ،جگرگوشہ علیؓوبتولؓ،محسن انسانیت جنت کے سردارکی کربلا کے لیے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی عظیم قربانی کا دِن ہے ۔وہ حُسین ؓ جسکے بارے میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا ‘‘حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حُسین سے ہوں‘‘۔وہ جس نے اپنی گُٹھی میں لعاب نبی ﷺ پایا۔اُس حسینؓ کو ہی اللہ نے دین کی آبیاری کے لیے چُنا۔ اللہ نے حسن ؓ اورحُسینؓ کو جنت میں جوانوں کا سردار بنایا۔ وہ جو شبعیہ نبی تھے جن سے نبی کو جنت کی خوشبوآتی ہو۔وہ جس کوممبر پربٹھا کر صدیق اکبرؓ خطبہ دیا کرتے تھے ،وہ جس کے لیے خلیفہ دوئم حضرت عُمر ؓ لکھوایںکہ ہم آپ کے غلام ہیں۔وہ حسین ؓ جو کہیں‘‘بے شک میں شہادت کو سعادت وخوش بختی اورظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت اورآگ سمجھتاہوں‘‘۔اور وہ جو کہیںکہ تم یہ جان لو کہ میں انصار اوراصحاب کم ہونے کے باوجود حق کی بقا کے لیے علم سربلند کرئوں گا۔وہ حُسینؓ جو حکمرانوں کو مخاطب ہو کر کہیںکہ جس حکمران کو رعایا کی تکلیف دیکھ کر بھی نیند آجائے اُس سے اللہ رعایا کا ظلم کاحساب لیں گے اورجو ریایا حکمرانوں کے ظلم اوربدیانتی پر اِن کی حمایت کرے وہ نیک ہونے کے باوجود اُن حکمرانوں کے ساتھ عذاب جھیلیں گے اور موت سے پہلے ایسے حکمران اوررعایا کو ذلیل ہونا ہوگا۔ جب یزید نے اپنا اقتدارسنبھالا تو اُس نے وہ قانون وحکم جاری کرنا شروع کردیے جو سراسر دین محمدی کے خلاف اور اِنسانیت کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف تھے۔امام عالی مقام نے بیعت کرنے سے انکار کردیا اور رجب کے مہینہ میں اپنے خاندان واصحاب ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔یکم محرم 61 ء ہجری کو کربلا کی زمین جو امام عالی مقام نے قبیلہ بنی اسد سے مہنگے داموں خرید کر یہاں اپنے خیمے لگائے۔ کربلا کے میدان جنگ میں جس طرح 72 شہدائے کربلانے سخت گرمی میں بھوک وپیاس کے ساتھ یزید کی لاکھوں کی فوج کامقابلہ کیا اورحق کے فلسفہ پر ایمان ویقین کیساتھ چٹان بن کرڈٹ کر کھڑے رہے۔چھ ماہ کے علی اصغرؓ سے لے کر اپنے جوان بیٹے اٹھارہ سال علی اکبرؓ،تیرہ سالہ بھتیجاشہزادہ قاسمؓ،اپنے بھائی شہنشاہ وفا علمبردار عباسؓ ،اپنے دوست حبیب ابن مظاہر ؓ اور دیگر عزیزوں بچوں ،بڑوں اور اپنے صحابہ کرام کی شہادت سے اپنے نانا کے دین کے حق کے پیغام کو سربلند کیا ایسی مثال تاریخ میں نہیںہے ۔ حضرت عباس علمبردار وفاوایثار کی ایک سب سے بڑا کردار کربلامیں تھا ۔بچوں کے لیے پانی لینے گئے اور یزیدی طاقتوں نے اِن پرواپسی پر نیزوں کی بارش کردی ۔ایک ہاتھ کٹاتو مشکیزہ پانی دُوسرے ہاتھ لے لیا دُوسرا ہاتھ کٹا تو مشکیزہ کومنہ مبارک سے مضبوطی سے پکڑلیا۔اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔اللہ کو یہ اِن کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آج چودہ سو سال گزر گئے مگر پانی اِن کی زیارت مبارک کے چاروں اطراف اِن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے جاری کردیا گیا۔یہ پانی نہ تو خراب ہوتاہے اور نہ گدلہ اور سب حیران ہیںکہ نزدیک نہرفرات بھی نہیں تو یہ پانی کہاں سے آکر قبر مبارک کا طواف کررہا ہے۔جب حکمران زیارت کے لیے جاتے ہیں تو اِن کو یہ جگہ دکھاتے ہیں ۔عام آدمی کو اجازت نہیںہے۔عباسؓ کے روضہ مبارک پر ‘‘باب الحوائج‘‘لکھا ہواہے یعنی جو بھی اللہ سے مولا عباسؓ کے نام پر کوئی بھی حاجت کے لیے ہاتھ پھیلائے گا رب اِس کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتا۔حُرؓ نو محرم تک یزیدی لشکر میںتھا مگر جب احساس ہوا کہ نواسہ رسول اور اِن کے خاندان والوں کے حق کے ساتھ میں نہیں کھڑا ہوں۔مولا حُسین ؓ کے پاس معافی کے لیے آیا تو امام عالیٰ نے نہ صرف معاف کردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک زائرین پہلے حرؓ کی زیارت پر نہیں جائیں گے میں اپنی زیارت پر آنے والوں کو پُرسہ قبول ہی نہیں کرئوں گا۔ چودہ سو سال سے ہر سال یہ دِن عقیدت واحترام ساتھ منایاجاتاہے ۔آپ نے مسلمانوں کو یہ عظیم قربانی دے کر یہ آفاقی پیغام دیا کہ بند مومن کی زندگی کا مقصد اِسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے سے منسلک ہوناضروری ہے اورجب بھی دین کو طاغوتی طاقتوں سے اندرونی وبیرونی خطرات ہوں تو حسینیت کاعلم بلند کرتے ہوئے وقت یزید کے سامنے ڈٹ کھڑے ہو ۔امام کی تحریک ذاتی ،شخصی اور معوسی اقتدار کے حصول کے لیے نہ تھی بلکہ دین محمدی پر چلنے کے لیے بادشاہت ،ملکومیت اور معروصیعت کے خلاف جنگ تھی ۔حق کی فتح ہوئی اور با طل کو عبرتناک شکست ہوئی۔درسِ کربلا اُمت محمدی کے لیے ایک ایسا نایاب ورثہ ہے کہ اگر امت مسلمہ ایک تحریک کے طور پر نواسہ رسول کے فلسفہ حق وباطل کو لے کر یزیدی طاقتوں کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں تو کشمیرسے لے کر بوسنیا،فلسطین اورجہاں جہاں دُنیا میں مسلمان آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں وہ سُرخرو ہوسکتے ہیں۔
کربلا والوں کی جنگ بنیادی انسانی حقو ق اور یزید کے دین محمدی سے بغاوت پرمبنی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ نواسہ رسول اور شیرخدا کا بیٹا اِس پر خاموش رہتا۔72 اِسلام کے سپاہی کیسے یزید کی لاکھوں فوج پر ہاوی ہوئے ۔بظاہر وہاں یزید یہ جنگ جیت گیا کیونکہ وہ سب اپنے بیعت نہ کرنے والوں کو شہید کرچکا تھا مگر وقت نے چند ہی دِن بعد ثابت کردیا کہ یہ قتل حسین ؓ دراصل مرگ یزید ہے اِسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد اور پھر تاحشرتک اللہ نے امام عالی مقام کواور سب شہداء کربلا کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ۔ کربلا کے واقعہ کے چند ماہ بعد یزید اور اُس کے حواریوں سے رَب نے کس طرح انتقام لیا کہ وہ صفحہ ہستی پر عبرتناک مثالیں بن گئے ۔ اقتدار ان سے چھین لیاگیا ان کو وہی لوگ جو اِس کے ساتھ تھے ۔رعایا اِن کو حقارت اور نفرت سے دیکھنے لگی ۔مولا کے صحابی امیر محتار نے ایک فورس بنا کر چُن چن کر واصل جہنم اُن کو کیا جنہوں نے کربلا کے میدان میں اہل بیعت وصحابہ کرام پرظُلم کے پہاڑ ڈھائے تھے۔ آج یزید کی قبر دمشق کے سنسان وویران تنگ علاقے میںہے جہاں کوئی نہیں جاتا ۔اور چودہ سو سالوں سے امام عالی مقام کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لیے پوری دُنیا سے مسلمان کربلا کی زمین پرجاتے ہیں، ہر سال دس محرم پر کروڑوں افراد کربلا کی زمین پر دس محرم امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ہر طرف صدائیں لبیک یا حُسینؓ ،لبیک یا حسینؓ کی آتی ہیں۔ہر طرف صدائیں حُسین ؓزندہ باد ہے ۔اعراقی افراد زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جگہ جگہ خیمہ اور گھر مختلف کھانوں کے ساتھ ورہائش کے زائرین کے لیے پورا سال سجائے رکھتے ہیں۔سلام یا حُسین ؓ ۔پرندے امام کے حرم سے عقیدت کے ساتھ کبھی اُوپرسے نہیں گزرتے ہیں ۔
فرشتے امام عالی مقام کو سلام عقیدت پیش کرنے آسمانوں سے آتے ہیں۔اللہ تیری شان جنت حُسین ؓ کی کربلا کی زمین مقدسہ کو ہی بنا ڈالا۔کربلا والوں کی جنت میںہر وقت اللہ کا ذکر جاری رہتاہے۔
افتخارعارف نے کیا خوب شعر امام عالی مقام کی شان میں کہاہے کہ
حُسین ؓ ! تم نہیں رہے تمھارا گھر نہیں رہا
مگر تمھارے بعد ظالموں کا ڈرنہیں رہا