محبت وتعظیم حسینؓ بخشیش کی سند ہے
محبت وتعظیم حسینؓ بخشیش کی سند ہے
فکر وذکرحسین وقت کی اہم ضرورت ہے
امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں حاضری اور آپ کی لازوال قربانی بالخصوص فکر وذکر حسین نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ضررورت ہے اور یہی محبت حسینؓ بخشیش کی سند ہوگی۔حضرت سیّدنا امام عالی مقام امام حْسین ؓ کی کربلا میں اپنے جانثاروں کے ہمراہ عظیم قربانی نے قیامت تک انے والی نسلوں کو پیغام دے دیا کہ باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام حسینؓ ہے بلکہ تاریخ گواہ ہے امام کے قیام و قربانی نہ صرف اسلامی دنیا میں مینارہ نور کی حیثیت حاصل ہے بلکہ دنیا بھر کے اہل مذاہب امام حسینؓ کے عزم و ایثار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کربلا میں امام کی قربانیاں ان کے وارثِ رسول ؐہونے کے باعث اور آغوشِ سیدنافاطمہؓ کے پروردہ ہونے کے سبب حق و باطل کے درمیان ایک امتیاز کا استعارہ ہیں۔واقعہ کربلا سے قیامت تک امام حسینؓ کو خراجِ عقیدت اور مدحت و مودت کے نذرانے پیش کیے جاتے رہیں گے۔ دنیا بھر کی زبانوں اور ادب میں امام حسینؓ کو اور واقعہ کربلا کو نمایاں انداز میں جگہ دی گئی ہے۔
سانحہ کربلا معلی بنیادی طور پرسیّدنا امام حسین علیہ السلام،اہل بیت اطہار اور ساتھیوں کی یزیدی فوجیوں کے ہاتھوں بے مثال دلیرانہ شہادت ، اور خانوادہ رسول کی پاک، با حوصلہ اور صابر بیبیوں اور بچیوں کے بییارو مددگار رہ جانے کی قیمت پر ، سیّد نا حضرت امام حسینؓ کا یزید کی بیعت اطاعت سے انکار یہ درس دیتا ہے کے حق پر ہونے کے لیے افرادی قوت نہیں دیکھی جاتی ۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ " یزید کی بیعت اطاعت کر لینے میں کیا چیز مانع تھی، کہ سیّدنا امام حسین علیہ السلام نے کسی بھی قیمت پر یزید کی بیعت اطاعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور پھر مصائب و آلام اور خون کے سمندر سے گزر کر اپنے فیصلے پر بے مثال جرائت، عزم صمیم، اور شجاعت کے ساتھ اس طرح پورا رہ کر دکھایا کہ قیامت تک اس کی مثال پیش کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔" مولا حسین کی کربلا میں مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف قربانی حق وسچ کی علامت ہے
پوری دینا اور تاریخ میں متعدد شخصیات نے ظلم کے خلاف حسینؓ کے موقف کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ وہ ظالم اور ناانصافی کے خلاف اپنے لڑائی لڑ رہے تھے۔ سیدناحضرت زینبؓ نے
سیدنا حسین وخانوادہ رسول و واقعہ کربلا کو اپنے تاریخی خطبہ میں دین اسلام کے لیے ان عظیم قربانیوں کے مقاصداور فکرِ حسینی کے فروغ کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔
جس طرح ایک ذاتِ محمد ہے بیمثل ومثال ہے بلکہ اسی طرح آپ کے خانوادے میں سیدنا علیؓ کی شجاعت اور مولا حسین کی اپنے نانا کے دین کے لیے قربانی کی نظیر نہیں ملتی آفاقی شاعر بیدم شاہ وارثی نے خراج عقیدت کے طور پر کہا
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات
خیرالنسا، حسین و حسن، مصطفی، علی
حضرت اقبال کہتے ہیں
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی سرمایہ شبیری
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
قیصر بارہوی لکھتے ہین
دیکھو تو سلسلہ ادبِ مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ قبضہ حسینؓ کا
ظفر اقبال خراج عقیدت کے طور پر کہتے ہیں
تیغِ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہوگئے
ایسی مثال پیش کی، آپ مثال ہوگئے
ارشد محمود ناشاد
فاتحِ کرب و بلا تجھ کو زمانوں کا سلام
سبھی زمانوں میں اس کی اذان بولتی ہے
جہاں جہاں ہے صداقت وہاں وہاں ہے حسینؓ
اختر رضا سلیمی کہتے ہیں
یزید تْو نے تو کچھ دیر زندگانی کی
مرے حسینؓ نے صدیوں پہ حکمرانی کی
کربلا کی تعلیمِ صبر و جرات کی روشنی سے زندگی کو منور کرکے انسان قربتِ الٰہی کا مستحق بن سکتا ہے۔ شعرا نے کربلائی روح کی دعا بھی کی اور زمینِ کربلا کو باعثِ برکت و سرخروئی بھی قرار دیا۔وسیلہ شاہِ کربلا اور خاکِ شفا کی بدولت ہمارے دونوں جہان کامرانی کا عظیم نمونہ ہوں گے۔ خطہ کربلا کو تاریخی حیثیت حاصل ہے اور امام نے اسے اپنے قیام کے لیے خرید کر خود پسند فرمایا۔ اس زمین میں امامِ مظلوم اور ان کے وفادار کربلا میں امام حسینؓ کے جانثاروں کا کردار مثالی اور انتہائی عظیم ہے۔ انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ رضائے خدا کے لیے پیش کیا اور باطل کے سامنے جھْکنے کے بجائے جامِ شہادت نوش کرنا بہتر سمجھا۔ خدا و پیغبرِ خدا کے سامنے یہ لوگ ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوئے۔ امامؓنے ان کے لیے جنت کی بشارت بھی دی۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللہ اک سجدہ شبیری
(وقار انبالوی)
وہ ایک سجدہ جسے تْو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(اقبال)
خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے
( احمد فراز)
سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؓ کا ہے
(افتخار عارف)
کسی سے اب کوئی بیعت طلب نہیں کرتا
کہ اہلِ تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے
(گلزار بخاری)
یونہی تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا
(عباس تابش)