سیدنا حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ
برائے خصوصی اشاعت 18 ذوالحجہ یوم شہادت
خلیفہ سوم ،پیکر جود وسخا
مولانا حافظ مجیب الرحمن
خلیفہ سوم ، پیکر جود و سخا سیدنا عثمان غنیؓ کو حضور اکرمؐ نے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپ کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ صحابہ کرامؓمیں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ حضور اکرمؐ کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثوم ؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا، طبقات ابن سعد کے مطابق آپ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرمؐ اپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنی) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔
آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین ہے، آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور ؐ سے ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفید رنگ ، خوبصورت و با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے ، گھنی داڑھی ارو دراز زلفوں کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی ؓ جب لباس زیب تن کر کے ’’عمامہ‘‘ سے مزّین ہوتے تو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ’’شرم وحیا‘‘ کی صفت میں بے مثال تھے۔
شروع ہی سے بڑے پیمانے پر تجارت کی بدولت آپ کا شمار ’’صاحب ثروت‘‘ لوگوں میں ہوتا تھا، آپ عمدہ لباس اور لذیذ و نفیس غذاؤں کے عادی تھے لیکن اس سب کے باوجود آپ کی طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی، رہن سہن ، اخلاق واطوار اور کردار میں آپ کا ہر کام ’’سنت نبویؐ‘‘ سے ہی آراستہ و مزین ہوتا، ایک مرتبہ وضوء سے فارغ ہوکر مسکرائے تو لوگوں نے اس موقعہ پر مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرمؐ کو وضوء کے بعد اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔
امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقع پر سیدنا عثمان غنیؓ ، حضور ؐکی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے۔۔۔۔۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حضور اکرمؐ کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی اس موقعہ پر حضور اقدسؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ’’بیعت‘‘ عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔ حضرسیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد حضور اکرمؐ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ امّ کلثوم ؓ کا نکاح بھی سیدنا عثمان غنیؓ سے کر دیا اس موقعہ پر حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل امینؑ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی (ام کلثومؓ) کا نکاح بھی آپ(عثمانؓ) سے کردوں دوسری بیٹی سیدہ حضرت ام کلثومؓ کی وفات کے بعد حضور اقدسؐ نے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور ایک روایت کے مطابق حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان کو سیدنا عثمان غنیؓ کے نکاح میں دیتا رہتا۔
جنگ تبوک کے موقع پر حضور اقدس ؐ نے صحابہ کرام رضوان کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔ اس موقع پر صدق و وفاء کے پیکر خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور اقدس ؐ کے قدموں میں نچھاور کر دیا ، ایک روایت کے مطابق اس موقع پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کے راستہ میں دیں حضور اقدس ؐ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ ؐ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’ماضّر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم‘‘ آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔۔
حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ؐ کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کیلئے دُعا فرماتے رہے آپؐ فرماتے تھے! اے اللہ میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدسؐنے فرمایا کہ ! اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اقدسؐ کو کبھی اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپؐ کی بغل مبارک ظاہر ہو جائے مگر عثمانِ غنی ؓ کیلئے جب آپؐ دعا فرماتے تھے تو بغل مبارک ظاہر ہوجاتی تھی۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔۔۔ اس کے علاوہ حضور اقدسؐ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے تھے اور تقریباً تمام رات نماز وعبادت میں مصروف رہتے ، آپ ’’صائم الدہر‘‘ تھے، سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا، جس روز آپ شہید ہوئے اس دن بھی روزہ سے تھے، ہر جمعۃ المبارک کو دو غلام آزاد کرتے ۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہونے کے بعدجب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو صحابہ کرام ؓنے ان سے درخواست کی کہ آپ اپنا جانشین و خلیفہ مقرر فرمادیں ، سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ نے ’’عشرہ مبشرہ‘‘ صحابہ کرام ؓ میں سے چھ نامور شخصیات ، حضرت عثمان غنی ؓ ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیر ؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو نامزد کر کے ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب کا حکم دیا۔ بالآخر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے خفیہ رائے شماری کے ذریعہ حضرت عثمان غنیؓ کو خلیفہ نامزد کیا۔۔۔۔۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں خاص طور پر یہ باتیں ارشاد فرمائیں! اے لوگو! نیک کام کرو، کیونکہ صبح و شام کوچ کرنا ہوگا، دنیا مکروفریب میں لپٹی ہوئی ہے اس کے قریب بھی نہ آؤ، گزری ہوئی باتوں سے عبرت حاصل کرو۔ سیدناحضرت عثمان غنیؓ 24ھ میں نظام خلافت کو سنبھالا اور خلیفہ مقر ر ہوئے تو شر وع میں آپ نے22لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ آپ کے دور خلافت میں یہ پہلا موقع تھا سیدناحضرت امیر معاویہؓ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے ’’بحر اوقیانوس‘‘ میں اسلام کا عظیم لشکر اتارا۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں۔ جہاں رفاعی شعبوں کا اجرائ، ہرعلاقہ میں سستے انصاف کی عدالتوں کا قیام بھی آپ کا منفرد کارنامہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ تمام صوبوں کے گورنر ، قاضی اور ارکان دولت کی چھان پھٹک کر کے نہایت زیرک اور محنتی حاکم مقرر کرتے ،آپ کا طریقہ تھا کہ ہر تین ماہ یا چھ ماہ بعد گورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جاری کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے گورنروں کے نام حکم نامہ جاری کیا جس میں یہ تحریر تھا کہ ! ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے امام یا
امیر کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ قوم کا نگران یا چرواہا ہو، اور اللہ تعالیٰ نے اس لئے اس کو امیر نہیں بنایا کہ وہ عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے روندھ ڈالے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن سعد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنیؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ دوپہر کے وقت مسجد نبویؐکے صحن میں کچّی اینٹ کا تکیہ سرکے نیچے رکھے ہوئے آپ آرام فرمارہے ہیں، میں نے گھر جاکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ ایسا حسین و جمیل شخص اس حالت میں کون تھا جو مسجد نبویؐ میں لیٹا ہوا تھا۔۔۔ والد نے کہا کہ یہ امیر المؤمنین سیدنا عثمان ؓ ہیں (ابن کثیر جلد 7 ص:213) حضرت عثمان غنیؓ کا دور خلافت بے مثال اصلاحات اور رفاعی مہمّات سے عبارت ہے، سادہ طرز زندگی ، سادہ اطوار ، اعلیٰ اخلاق ، عام آدمی تک رسائی ، ظلم و جور سے نفرت ، زیادتی اور تجاوز سے دوری آپ کے شاہکار کارناموں میں شامل ہے، آپ کے پہلے چھ سال فتوحات و کامیابی و کامرانی کے ایسے عنوان سے عبارت ہیں کہ جن پر اسلام کی پوری تاریخ فخر کرتی رہے گی۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،