مودی نحوست کے اثرات ظاہر ہوگئے
رام مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب کیلئے شنکر اچاریہ پنڈتوں نے 5 اگست کو منحوس دن قرار دیا تھا ۔ ا سکے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اس مکروہ تقریب کے انتظامات میں مصروف 160 سیکورٹی اہلکار کورونا وائرس کا شکار ہوگئے جبکہ سرکردہ 19 پنڈت بھی اسکی لپیٹ میں آگئے جنہوں نے شنکر اچاریہ پنڈتوں کے انتباہ کو نظر انداز کر کے مودی سرکار کا ساتھ دیا۔ ٹیلیگراف آف انڈیا کیمطابق مودی نے اس تقریب کے انعقاد سے اپنے ووٹروں کی تعداد میں لاکھوں کے اضافہ کا جو منصوبہ بنایا تھا کورونا نے یہ سب چوپٹ کر دیا ۔ ڈیلی بھاسکر کیمطابق تقریب دھوم دھام سے منانے کا پروگرام تھا مگر کورونا کے باعث سب کھٹائی میں پڑ گیا۔
بھارتی وزیر اعظم مودی جو بھارت میںا قلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کیلئے عملاً موذی بن چکا ہے اس نے بھارتی مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور کشمیر کے مسلمانوں کو دوہری اذیت سے دوچار کرنے کیلئے 5 اگست کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا ۔ یہ اعلان پاکستان سمیت تمام اسلامی حکومتوں کی غیرت کیلئے بھی چیلنج تھا۔ یہ وہ منحوس دن ہے جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کا نیا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی تھی۔ بین الاقوامی برادری مگر خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ یہ انکی مسلمان اور اسلام دشمنی کیلئے باعث راحت و تسکین بھی تھا مگر سوائے ترکی و ملائیشیاکے ، کسی مسلمان حکمران کو اس ناپاک جسارت کیخلاف آواز بلند کرنے کی توفیق نہ ہوئی جس نے موذی کو حوصلہ دیا کہ وہ اس تاریخ کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کر کے عالم اسلام کے حوالے سے ساری دنیا کو باور کرادے حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ حکومت پاکستان نے اس روز یوم استحصال کشمیر منانے کا اعلان کیا ہے۔مودی سرکار نے 5 اگست کو یہ مکروہ قدم اٹھانے کیلئے شبھ گھڑی (مبارک وقت)ہونے کا دعویٰ کیا مگر بھارت کے چار بڑے شنکر پجاریوں نے متفقہ طور پر اس دعویٰ کی قلعی کھول دی ہے اور مبارک کی بجائے بھارت کیلئے منحوس گھڑی قرار دیا ہے اور ظاہر ہے جس جگہ اللہ وحد ہ لا شریک کا گھر منہدم کر کے کھلے شرک، کفر کی بنیاد رکھی جائے وہ یقینا منحوس بلکہ منحوس ترین گھڑی ہی ہو سکتی ہے۔ تین سینئر گرواپنے علیحدہ علیحدہ بیان میں ایک بات کرتے نظر آتے ہیں کہ 5 اگست کو رام مندر کا سنگ بنیاد دیش دھرم (ملک اور مذہب) کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو تقدیم کے مطابق اس پورے مہینے میں کوئی شبھ مہورت ہے ہی نہیں تو یہ لوگ کہاں سے رام مندر کی تعمیر کا مہورت نکال لائے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ سیاسی فیصلہ ہے ۔ اخبار نیشنل ہیرالڈ نے لکھا کہ ان تین شنکر اچاریہ پنڈتوں کی جانب سے 5 اگست کو سنگ بنیاد کی مخالفت پر مودی سرکار اور اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ خاموش ہے۔ ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے رام جنم بھومی ٹرسٹ کے چیئرمین مہنت نریتا گوپا ل داس نے کہا اسے شبھ مہورت کا کوئی علم نہیں ۔ ٹائمز ناؤ سے بات کرتے ہوئے شنکر اچاریا سواد مانند سرسوتی نے 5 اگست کو بھارت کیلئے منحوس قرار دیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ کس کے کہنے پر یہ تاریخ رکھی گئی۔ جو بالکل بابرکت نہیں ۔ جبکہ شنکر اچاریہ نریندر آنند مہاراج نے بھی 5 اگست کو شبھ مہورت ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان بڑے پنڈتوں کے بیان کا جائزہ لیتے ہوئے 5 اگست 2019 کے بعد سے جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت کا حصہ بنا لیا گیا ہے، بھارت پر نحوست کے پھیلے سائے صاف محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ بھارت کی معیشت تباہی کے دہانے کی جانب گامزن ہوئی ، نوٹ بندی اور دیگر مالیاتی پالیسیوں کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ پھر رہی سہی کثر کورونا نے نکال دی۔ شہریت قانون لا کر ملک کو احتجاجی مظاہروں کے حوالے کر دیا گیا۔ مسلمان اور ہندوؤں میں منافرت کے پہلے سے موجود خلیج کو وسیع کیا گیا۔ اس کے بھی معیشت پر برے اثرات پڑے۔ عوام کو انتہائی بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور دیگرجنگی سازو سامان کے ڈھیر لگائے گئے جس نے معیشت کو کمزور کیا۔ لداخ کے اہم سٹرٹیجک علاقہ پر چین نے قبضہ کرلیا۔ نیپال دنیا کی واحد ہندوریاست عسکری قوت کے لحاظ سے نیپال اور بھارت میں زمین آسمان کا فرق۔ اسکے باوجود نیپال آنکھیں دکھا رہا ہے۔ بھارت جس علاقے کا دعویدار ہے اسے اپنے ملکی نقشے میں شامل کر رہا ہے۔ تری پورہ، آسام، منی پور، ناگا لینڈ وغیرہ میں بغاوت کی تحریکیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ گزشتہ دنوں آزادی پسندوں کے حملے میں آسام رائفلرز سے تعلق رکھنے والے کئی بھارت فوجی ہلاک ہوگئے۔ بھوٹان نے بھی لاتعلقی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیاہے۔بنگلہ دیش جس کے قیام کا مودی دعویدار ہے تعلقات میںدوری تیزی سے بڑھ رہی ہے حتیٰ کہ بھارتی ہائی کمشنر کی باربار درخواستوں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم حسینہ واجد سے چار سے زائد مہینے گزر گئے ملاقات کا وقت نہیں دے رہیں۔ وہ حسینہ واجد جسے بھارت کی تابع فرمان حکومتی عہدیدار کہا جاتا تھا۔ افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود کسی بھی کردار سے فراغت مل گئی۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں اربوں کی سرمایہ کاری اور چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائنیں بچھانے کیلئے اربوں ڈالر کے معاہدے چشم زدن میں ختم کر دیئے گئے۔ کنٹرول لائن پر چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی درگت بن گئی۔ چین نے جس علاقے پر قبضہ کیا ا س سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹایا جاسکا۔ یہ سب اور دیگر واقعات کیا اس ناقابل تردید حقیقت کا ثبوت نہیں ہے کہ 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا بھارت کیلئے نحوست ثابت ہوا ہے ۔ اسی طرح 5 اگست 2020 کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے پر شنکر اچاریہ مانند سرسوتی کے بقول دنیا اسکی نحوست ضرور دیکھے گی۔ لیکن تعجب خیز بات ہے کہ ہندو توا کے پرچارک بڑے ہندو پجاریوں کے انتباہ پر کان کیوں نہیں دھر رہے حالانکہ انہیں مودی سے زیادہ اپنے مذہبی نیتاوں کی بات پردھیان دینا چاہیے لیکن وہ جو کہاجاتا ہے کہ ناں کہ انتہا پسندی سے پہلے اور سے زیادہ عقل و دانش پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ہندو توا کے پرچارک عملاً جو مذہب اختیار کر چکے ہیں ا سکی شناخت اب ہندو عقیدہ نہیں بلکہ مسلمانوں سے نفرت اورانہیں ملیا میٹ کرنے کا جنون ہے۔ بھارت کو خالصتاً ہندو ریاست بنانے کیلئے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایما پر بھارتی آئین سے سیکولر ازم اور سوشلسٹ کے الفاظ نکالنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے دو کارکنوں بلرام سنگھ اور کرونیش شکلا نے ایک وکیل وشنو شنکر جین (ا س کا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے) کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے آئین سے سیکولر ازم اور سوشلسٹ کے الفاظ حذف کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔یاد رہے بھارت کے آئین میں یہ الفاظ 42 ویں ترمیم کے ذریعے شامل کے گئے تھے اور آر ایس ایس نے جس کے گنے چنے ممبر تھے اس قانون سازی کابائیکاٹ کیا تھا۔
مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کیلئے اذیت پسند بی جے پی لیڈروں نے بشمول مودی نے ایک گمنام شخص کو کہیں سے پکڑ کر اس سے یہ دعویٰ کرایا کہ اسکاتعلق آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے ہے اور اس مجبور و مقہور شخص سے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھوایا جائیگا۔ ایسی اوچھی حرکتوں سے بھارتی مسلمانوں کوذہنی تکلیف تو ضرور پہنچائی جاسکتی ہے لیکن اس سے خود بھارت میں عقل و خرد رکھنے والے ہندوؤں میں تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جائیگا۔