روٹی روزگار کے مسائل میں عوام کو مطمئن کرنے کیلئے اب ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہونگے
وزیراعظم عمران خان کا عوام سے کئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے اور پیچھے نہ ہٹنے کا عزم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ کشتیاں جلا دی ہیں۔ پنجاب میں نچلی سطح پر اور پولیس پٹوار کلچر میں بڑی کرپشن ہے۔ افسروں کو بہت مراعات دے دیں‘ اب ان سے رزلٹ لینا ہے۔ دو سال بہت مشکل میں گزارے‘ یہ ہر جگہ اکھٹے ہو جاتے ہیں اور قانون سازی میں تعاون کیلئے بھی این آر او مانگتے ہیں‘ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز دورۂ لاہور کے موقع پر قومی رابطہ کمیٹی برائے ہائوسنگ و تعمیرات کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے تحت راوی کے کنارے پچاس ہزار ارب روپے سے نیا شہر بنانے کے منصوبے کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ انکے بقول ہم یہ منصوبہ نہ بناتے تو لاہور کا حال بھی کراچی جیسا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے خاتمہ کیلئے سب نے محنت کی‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عذاب سے بچالیا۔ اب اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو یہ ناشکری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے اور اب پاکستان میں وہ وقت آچکا ہے کہ ہم عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ انکے بقول نئے شہر کے منصوبے سے پاکستان میں سرمایہ آئیگا اور ملک خوشحال ہوگا جبکہ ہم اس پیسے سے واجب الادا قرضے بھی اتار سکیں گے اور یہ منصوبہ لاہور کا پھیلائو بھی روکے گا۔
یہ امر واقع ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کے ریاست مدینہ جیسی فلاحی مملکت اور کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر صاد کرتے ہوئے انہیں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تھا۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو اسی تناظر میں روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے گھمبیر مسائل سے فوری نجات کیلئے عوام کی توقعات پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ وابستہ ہو گئیں تاہم ملک جن گھمبیر اقتصادی مسائل میں جکڑا ہوا تھا ان سے نجات اور قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے حکومت کو اپنے آغاز ہی میں سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں جن کے ماتحت حکومت کا آغاز ہی پاکستانی کرنسی کے مقابلہ میں ڈالر کے نرخ سرعت کے ساتھ بڑھنے اور ساتھ ہی ساتھ ضمنی میزانیہ لا کر مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور بعض نئے ٹیکس لگانے سے ہوا۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی شروع ہی سے حکومت کی مجبوری بن گیا نتیجتاً مہنگائی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا اور عوام کیلئے پہلے سے موجود گوناںگوں مسائل کے پہاڑ مزید بلند ہوگئے۔ حکومت کو اپنے ابتدائی مہینوں میں چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 12‘ ارب ڈالر کے قریب بیل آئوٹ پیکیجز بھی مل گئے‘ اسکے باوجود حکومت کو اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑا جس کی عائد کردہ شرائط کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حکومت کو بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید بڑھانا پڑے۔ اس طرح عوام کے روٹی روزگار کے مسائل بتدریج بڑھنے سے پی ٹی آئی حکومت سے وابستہ عوام کی توقعات مایوسی میں بدلنا شروع ہو گئیں اور ان میں پیدا ہونیوالے اضطراب کو اپنے حق میں کیش کرانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی صف بندی کرتی نظر آئیں۔
جب پی ٹی آئی کے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے کے بعد حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام کی راہ ہموار ہونا شروع ہوئی تو کرونا کی گرفت نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس پر قابو پانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجہ میں قومی معیشت عملاً نڈھال ہو گئی اور ملک میں بے روزگاری کا نیا طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس سے عوام کے زندہ درگور ہونے میں رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ وزیراعظم عمران خان اس دوران کرپشن فری ایجنڈے کے تحت چونکہ کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے نعرے بھی تسلسل کے ساتھ لگا رہے تھے اور نیب نے احتساب کے عمل میں بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور عہدیداروں کیخلاف شکنجہ کسا ہوا تھا اس لئے عوام کے بڑھتے اقتصادی مسائل کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت مخالف تحریک کیلئے باہم متحد ہو کر منصوبہ بندی کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ منصوبہ بندی اب آل پارٹیز کانفرنس کی شکل میں ممکنہ عوامی تحریک کے تانے بانے بنتی نظر آرہی ہے جبکہ روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے گھمبیر مسائل نے عوام کو عملاً نڈھال اور بے حال کر دیا ہے اور اس صورتحال میں وہ اپوزیشن کی تحریک کے کیلئے ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق ایندھن کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اب جبکہ پی ٹی آئی کے اقتدار کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے‘ حکومت کو اپوزیشن کی کسی تحریک کی نوبت آنے سے پہلے ہی عوام کے غربت مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی شفاف اور قابل عمل پالیسی مرتب کرلینی چاہیے۔ وزیراعظم کے بقول پنجاب میں نچلی سطح پر بڑی کرپشن ہو رہی ہے تو اسکے تدارک کے معاملہ میں حکومتی گورننس پر سوال اٹھنا بھی فطری امر ہوگا کیونکہ کرپشن فری سوسائٹی تو پی ٹی آئی کا بنیادی منشور ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے اقتدار میں کرپشن بھی بڑھ رہی ہو اور عوام میں اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں بھی مایوسی بڑھ رہی ہو اور اسی طرح مفقود ہوتے روزگار کے مواقع میں میرٹ کا سوال بھی اٹھ رہا ہو تو اس سے گڈگورننس کا تصور بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی شکل میں بڑھتے عوامی مسائل کا ادراک بھی ہے اور وہ عوام کو ان مسائل سے نجات دلانے کیلئے فکرمند بھی رہتے ہیں تاہم عوام اب زبانی جمع خرچ اور وعدہ و عید سے آگے کا دیکھ رہے ہیں جو اپنے مسائل کے حل کیلئے پی ٹی آئی کے منشور کو عملی قالب میں ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ محرومیوں کا احساس تو ملک کے ہر حصے بالخصوص جنوبی پنجاب‘ چولستان‘ اندرون سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پی کے کے پسماندہ علاقوں میں بتدریج بڑھ رہا ہے جبکہ کراچی اور لاہور کے مسائل ان شہروں کی اہمیت کے تناظر میں جانچے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان فی الواقع کشتیاں جلا کر اقتدار میں آئے ہیں اس لئے انہیں آگے کا سفر طے کرنے کیلئے عوام کے دل جیتنا ہونگے جو انکے روزمرہ کے مسائل حل کرنے سے ہی ممکن ہے۔