مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں سے ناراض ہیں ان کی ناراضی کی وجہ سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد خطرے میں ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک بھی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی بار بار وعدہ خلافی کے بعد مولانا فضل الرحمن نے کسی بھی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے لیے تحریری معاہدے کی شرط بھی رکھ دی ہے۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی بھی اپنے رہنماؤں کو ڈھونڈ رہی ہے۔ چونکہ اپوزیشن کی کوئی سمت نہیں ہے نہ وہ متحد ہیں نہ ہی وہ متحد ہو کر پارلیمنٹ میں عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ان خامیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اپوزیشن بھی عوامی سطح پر غیر مقبول ہوئی ہے۔ لوگ حکومت سے تو ناراض ہیں لیکن اپوزیشن سے بھی ناخوش ہیں کیونکہ اپوزیشن کو اپنی پیشیوں اور کرپشن کے دفاع کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا نہ انہیں کچھ یاد رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتماد مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے تو اپوزیشن اس خراب کارکردگی کو مناسب انداز میں اسمبلی کے اجلاسوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی دوستوں سے ناراض ہوئے ہیں تو اتحادی حکومت سے ناراض ہیں۔ حکومت کا رویہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ نامناسب رہا ہے ہم اس غیر جمہوری رویے پر متعدد بار لکھ چکے ہیں۔ حکومت کو یاد کروایا گیا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں اتحادیوں کو ساتھ کے کر چلنا، ان سے مشاورت کرنا، فیصلہ سازی میں اتحادیوں کو شامل کرنا اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے وزراء سے بات چیت کرنا ضروری ہے۔ بدقسمتی ہے کہ تلخ تجربات اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کیا، اتحادیوں کو ان کا حق اور جائز مقام نہیں دیا گیا اور اب دو سال بعد حالات یہ ہیں اتحادی ہی سب سے مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آنے والے ہیں۔ مستقبل کی سیاسی صف بندی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نئی سیاسی صف بندی میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ق لیگ اور مولانا کی بڑھتی ہوئی قربتیں بتا رہی ہیں کہ چودھری برادران نے مستقبل پر کام شروع کر دیا ہے۔ محمد علی درانی فنکشنل لیگ کے سیکرٹری جنرل بن گئے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل سکتے سب اکٹھے ہو جائیں گے۔۔
مستقبل کے اس سیاسی اتحاد میں مذہبی طبقے یا مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ چودھری برادران اور مولانا کی بڑھتی ہوئی قربتیں، پنجاب اسمبلی میں مذہبی معاملات پر ہونے والی قانون سازی کے محرکات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، میاں نواز شریف بیرون ملک ہیں میاں شہباز شریف ہومیوپیتھک بن کر رہ گئے ہیں۔ قیادت کے ملک چھوڑ کر چلے جانے اور ملک میں موجود قیادت کی خاموشی کے باعث لوگ ادھر ادھر دیکھ کر سیاسی مستقبل بارے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ سیاسی کھلاڑی اس طرف جائیں گے جہاں انہیں بہتر مستقبل نظر آئے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حالت کمزور ہو چکی ہے، لوگ تحریک انصاف سے بھی خوش نہیں ہیں۔
یہ عوامل مستقبل میں سیاسی کھلاڑیوں کو ایک ڈریسنگ روم میں بٹھانے کے لیے کافی ہیں۔ پنجاب میں ایسے تمام افراد کے لیے چودھری برادران محفوظ سیاسی پناہ گاہ قائم کرنے والے ہیں۔ بلوچستان میں بھی ان کے لوگ سیاسی کھیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن متحرک ہو کر سیاسی کھیل کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ اتحاد آگے بڑھتا ہے تو یاد رکھیں اسے کامیابیاں ضرور ملیں گی ایسی کامیابیاں کہ لوگوں کو منظور وٹو یاد آ جائیں گے۔ یہ اتحاد تینوں صوبوں اور مرکز پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ انہیں کامیابی مل سکتی ہے اور اس اتحاد کو کہیں نہ کہیں سے مدد بھی مل سکتی ہے۔ یہ اتحاد حکومت کی ہٹ دھرمی، وزراء کی نالائقی، عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے بننے جا رہا ہے۔ سیاسی حالات سے اس اتحاد کو مدد مل رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ناراض افراد اور سیاسی مستقبل بارے عدم تحفظ رکھنے والے افراد اس اتحاد کی طاقت بنیں گے۔
ڈاکٹر آمنہ لکھتی ہیں کہ میری بیٹی نے دو ہزار چودہ میں پنجاب یونیورسٹی سے پچانوے فیصد مارکس کے ساتھ ایم ایس کیا تھا لیکن ہم ابھی تک ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انتظامیہ نے ہمیں فٹبال بنا کر رکھ دیا ہے کبھی اس کمرے کبھی اس کمرے کبھی یہ چیز کم ہے کبھی وہ چیز کم ہے کبھی اس کلرک کے پاس جائیں کبھی اس کے پاس کبھی اس شعبے سے رابطہ کریں کبھی اس شعبے سے رابطہ کریں۔ ایک ہونہار طالبہ کو جس نے پنجاب یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے اسے اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لیے تعلیم مکمل کرنے سے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ انتظامیہ شفافیت اور طلباء کو سہولیات فراہم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن ایک ڈگری کا حصول کتنا مشکل ہو چکا ہے وائس چانسلر صاحب توجہ دیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ جامعہ کا سٹاف طالبعلموں کے ساتھ کتنی زیادتی کر رہا ہے۔
آج قارئین کو بتاتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی ابتدائی ٹیم میں کون کون سے لوگ شامل تھے۔ اس رابطہ کمیٹی نے مشکل حالات میں بہت زیادہ کام کیا بلکہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کیا۔ پی ٹی آئی کے لیٹر ہیڈ پر ان کے نام آج بھی موجود ہیں۔ لیٹر ہیڈ پر لکھا تھا "انصاف عام" "احتساب سرعام" "اقتدار میں عوام" یہ نعرہ پڑھ لیں اور آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو دیکھ لیں آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ اس تیسری سیاسی قوت کے لیے قربانیاں دینے والوں نے راستے الگ کیوں کیے ہیں۔ اس پہلی رابطہ کمیٹی میں مواحد حسین، طارق حسین، چودھری اکرم، شبیر سیال، مظہر ساہی، امجد اقبال، امین ذکی، خالد پرویز، سعید میو، میاں خالد، افتخار بلوچ، خالد حسن، میاں محمود الرشید، ایاز صادق، ڈاکٹر طاہر رانا، طارق فاروق مرزا، شمس رضا، چودھری نذیر احمد، ابوبکر کریم چودھری اور میاں حارث سلیم شامل تھے۔ ان سب لوگوں نے اس جذبے کے ساتھ کام شروع کیا تھا کہ اقتدار عوام کا ہو گا، احتساب سرعام ہو گا اور انصاف عام ہو جائے گا۔ اقتدار کے راستے میں پاکستان تحریک انصاف یہ تمام وعدے کہیں بہت پیچھے بہت دور چھوڑ آئی ہے۔
جن لوگوں کے نام آپ کے سامنے پیش کیے ہیں ان میں شاید ہی کوئی ہو گا جو آج بھی جماعت ساتھ ہو یا کوئی اہم ذمہ داری نبھا رہا ہو ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال اس جماعت کو دیے، دن رات کام کیا لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ان بانی اراکین کو کہیں عزت نہیں دی، ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا، ان کی محنت اور کاوشوں کی تعریف نہیں گئی نہ ہی حکومت میں آنے کے بعد ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ان بانی اراکین کو شناخت دینے سے بھی انکار ہی کیا ہے۔ حالانکہ بانی اراکین کی اکثریت کی کوئی سیاسی تربیت نہ تھی نہ ہی وہ جماعتیں بدلنے والے روایتی سیاسی کارکن تھے بلکہ یہ لوگ عمران خان کی محبت اور چاہت میں اس کے سیاسی سفر کے ساتھی بنے اور کپتان ہی محبت میں کام کرتے رہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے ان کی اور ان کے بعد آنے والوں کی سیاسی ترتیب پر کبھی کام ہی نہیں کیا۔ عمران خان ہمیشہ اپنے سیاسی کارکنوں کو اپنا پرستار سمجھ کر آگے بڑھتے رہے اور بدقسمتی سے انہوں نے جماعت کے بانی اراکین کے ساتھ آج تک ایک سٹار کرکٹر کی طرح برتاؤ کیا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے پی ٹی آئی نچلی سطح پر مضبوط نہیں ہو سکی، تنظیم سازی پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔کسی کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ جماعت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے پر توجہ دے اور کام کرے۔ حکومت میں آنے کے باوجود آج بھی پی ٹی آئی عمران خان سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کو اہم عہدے دیے گئے ہیں اور وہ تعریف میں زمین و آسمان ایک کر رہے ہیں یہ سب چوری کھانے والے ہیں ہوا کا بدلتا رخ دیکھیں گے کہیں اور چلے جائیں گے۔ جماعتوں کی پہچان اس کے بانی اراکین اور نچلی سطح پر کام کرنے والے افراد ہوا کرتے ہیں وہ سب تو اقتدار کے راستے میں کہیں گم ہو چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی اراکین کو نظر انداز کر کے ایک پوری نسل کو سیاسی سرگرمیوں سے دور کیا ہے۔ عزت اور مقام صرف عہدوں سے ہی نہیں ملتا پرانے ساتھیوں کو مشاورت میں شامل کر کے ان کی خدمات کا اعتراف کر کے انہیں ہیرو بنا کر پیش کرنے سے بھی کیا جاتا ہے یہی رویے سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی آج تک ایک سیاسی جماعت نہیں بن سکی۔ یہ عمران خان سے محبت کرنے اور اسے پسند کرنے والوں کا ہجوم ہے۔ عمران خان اسے ایک بہترین سیاسی جماعت بنا سکتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔
لاہور سے عرفان احمد لکھتے ہیں اکرم چودھری صاحب تعریف سے بالا تر ہیں آپ نے متفرق موضوع پر گفتگو مشورے کے ساتھ کی ہے۔ آپ نے دو دھاری تلوار پہ کھڑے ہو کر لکھا ہے۔ حاصل تحریر، ان نالوں سے نکلنے والے گند کے سامنے کھڑے ہو کر ہم سیاسی گند پھیلانے میں مصروف تھے۔ آپ نے قلم کی دھار سے سیاست دانوں کے چہروں پہ جو سیاہی کی لکیریں بنا دی ہیں۔ ان میں کچھ احساس ہو تو اسی گندے نالے میں کود کر اس گندگی کا حصہ بن جائیں۔ سیاست دانوں کے ذہن تو نفرت اور لوٹ مار سے بھرے ہوئے ہیں ان کی بدتہذیبی نے ماحول کو بھی بدبودار کر دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024