جمعۃ المبارک‘ 7؍ ذی الحج‘ 1440ھ‘ 9؍ اگست 2019ء
بکرا منڈیوں میں بیوپاریوں اور خریداروں میں مقابلہ تیز ہو گیا
موسمی تغیر اور برسات کے باعث عیدالاضحی پر قربانی کے لیے جانوروں کی خریداری کا معاملہ کچھ روز ٹھنڈا رہنے کے بعد خریداری کا میدان ایک پھر گرم ہو گیا ہے۔ بیوپاریوں نے مویشی منڈیوں میں اپنی مدد آپ کے تحت پانی اور کیچڑ صاف کر کے جانوروں کو ایک بار پھر نہلا دھلا کر تیار کر دیا ہے تاکہ ان کی خوبصورتی خریداروں کا دل موہ سکے۔ یہاں تک تو بات صد فیصد درست ہے۔ مگر یہ جو راہ خدا میں قربان ہونے والے جانوروں کی قیمت ہے۔ اسے سن کر تو یہ بے چارے خریدار جنہوں نے جانوروں پر پیار سے ہاتھ رکھا ہوتا ہے یوں اچھل پڑتے ہیں جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو یا جانوروں میں کرنٹ آ گیا ہو۔ اس وقت ملک بھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت صحت مند چھترا ، بکرا، دنبہ، گائے ، بیل اور اونٹ برائے فروخت دستیاب ہیں۔ مگر ان کی قیمت سن کر اکثر خریدار صرف ہائے کہہ کر بائے بائے کرتے نظر آتے ہیں۔ لے دے کے بعد میں کوئی سادہ، مناسب اور عام سا جانور قربانی کے لیے خرید کر یا خالی ہاتھ گھر واپس لوٹتے ہیں۔ سرمایہ دار البتہ سرمائے کی مناسبت سے تگڑا جانور خریدتے ہیں تاکہ سب کو پتہ چلے کہ یہ فلاں صاحب کا جانور ہے۔ چلیئے جو بھی ہے محلے بکروں، دنبوں اور چھتروں کی میں میں سے گونجنا شروع ہو گئے۔ بچے بالے اپنے اپنے جانوروں کو سجا کر ان کے ساتھ مٹرگشت کرتے خوش نظر آ رہے ہیں۔ اب قربانی کے دن بھی اگر ان جانوروں کا گوشت ایمانداری سے اڑوس پڑوس ، احباب اور مستحقین میں تقسیم ہوتا نظر آئے تو سمجھ لیں فلسفہ قربانی پر عمل بھی ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
چیئرمین سینٹ کے خلاف پھر تحریک عدم اعتماد کا اعلان، اب جیتیں گے۔ زرداری
محسوس ہوتا ہے ہے آصف زرداری صاحب ابھی تک شکست کا صدمہ نہیں بھولے۔ وہ آج بھی چیئرمین سینیٹ کی ہاری ہوئی بازی واپس پلٹنے کے چکر میں ہے۔ اس بار ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے ووٹنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے۔ خفیہ کی بجائے اوپن ووٹنگ سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں سینیٹرز حصہ لیں۔ چلیں پھر یوں ہی سہی فی الحال اس کام میں وقت لگے گا کیونکہ پہلی بازی جیتنے کے بعد حکومت کافی پرعزم ہے۔ اپوزیشن والے ابھی تک اپنے پھٹے کپڑے سینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ تک پتہ نہ چلا سکے کہ کھڑے ہو کر سینہ تان کر چیئرمین سینیٹ سے استعفیٰ مانگنے والوں میں سے وہ 14 ارکان کون تھے جو کاغذی شیر ثابت ہوئے اور خفیہ سودے بازی کا شکار ہوئے۔ جب تک ایسے لوٹے اپوزیشن کی صفوں میں موجود ہیں پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) وہ کبھی بھی بازی جیت نہ پائیںگے۔ ویسے بھی قانون کے مطابق اب انہیں چھ ماہ تک تو اپنی چوٹوں کو سہلانا ہو گا پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ’’ دعا جانے یا رب جانے‘‘ فی الحال تو زرداری صاحب کا عزم جواں ہے اور وہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
والی حالت میں نظر آ رہے ہیں۔ معلوم نہیں مسلم لیگ (ن) والے اس عزم جواں کا ساتھ دے پائیں گے یا نہیں۔ کیوں کہ وہاں ہے کہ نہیں ہے کا منظر اور افراتفری کی حالت ہے۔ وہ بھی اپنے باضمیر بکائو مال کا سراغ لگانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
کشمیر پر شب خوں، مودی سرکار نے دوسری نیم خودمختار ریاستوں کو بھی خوفزدہ کر دیا
جی ہاں یہ کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ بھارتی آئین کے تحت صرف مقبوضہ کشمیر کو ہی نیم داخلی خودمختاری حاصل نہ تھی۔ اس زلف گرہ گیر کے اور بھی کئی اسیر ہیں۔ اب مودی حکومت نے جس طرح بنا کسی اعلان کے بنا کسی مشورے کے صدارتی حکم کے تحت کشمیر کو اس کی نیم خودمختاری سے محروم کر دیا جو کشمیر کے بھارت کے ساتھ جبری الحاق کی بنیاد تھا۔ اس سے آسام، میزورام، ناگا لینڈ، منی پور، اروناچل پردیش جو 370 کی طرح کی آئینی دفعات کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق جیسے معاہدہ کر چکی ہیں اب حیران و پریشان ہیں کہ کہیں ان کا حشر بھی کشمیر جیسا نہ ہو۔ انہیں بھی اکثریت سے اقلیت بنانے کی یہ شروعات نہ ہوں۔ اس طرح ان کی شناخت، کلچر اور مذہب تک معدوم ہو جائے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے ان علاقوں کی سیاسی جماعتوں نے اس عمل پر شدید احتجاج کیا ہے۔ مگر بھارتی حکمران بھی بڑے سیانے ہیں۔ وہ ان سب کو بھی کشمیر کی طرح ترقی دلانے اور ان ریاستوں میں خوشحالی لانے کے نعرے لگا کر آسانی سے ہڑپ کر لیں گے۔ کشمیر کے لیے پھر بھی پاکستان جیسا موثر وکیل دستیاب ہے۔ ان ریاستوں پر رونے کے لیے صرف چین ہی ملے گا وہ بھی ان ریاستوں کے لیے جو اس کی سرحدوں سے ملحق ہیں۔ بھارت کی سامراجی توسیع پسندانہ کارروائیوں سے بچنے کے لیے اب ان ریاستوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیں اور بھارتی سپریم کورٹ سے اپیل کریںکہ وہ اس غیر آئینی اقدام کو ختم کرنے کا فیصلہ د ے کر کشمیری خصوصی حیثیت بحال کرے تاکہ ان ریاستوں کی بچت کی بھی راہ نکلے۔ بصورت دیگر یہ ریاستیں اپنی آزادی کی جاری تحریکوں کو مزید تیز
کرکے بھارت کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہیں۔
٭٭٭٭
روپے کی قدر میں کمی کا اثر 6 ماہ بعد آئے گا۔ عبدالرزاق دائود
جب تک نالوں کا جواب آئے گا اس وقت تک غریب غربا میں سے نجانے کتنے بھوکے ننگے اور مریض راہی ملک عدم ہو چکے ہوں گے۔ قوم نے پی ٹی آئی والوں کو مسیحا خیال کر کے حکمرانی کی سیج پر بٹھایا تھا۔ مگر یہ تو رہی سہی جان بھی نکالنے پر تل گئے ہیں۔ خود ادارہ شماریات پاکستان کی رپورٹ کے مطابق غریبوں کے لیے مہنگائی کی شرح میں گزشتہ ہفتے 19 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 32 بنیادی اشیاء یعنی کچن آئٹم کھانے پینے کی اشیاء پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ یہ کسی دشمن کی غلط فہمی پھیلانے والی رپورٹ نہیں خود پاکستانی ادارہ کی چشم کشا کہہ لیں یا حکمرانوں کے لیے قبض کشا رپورٹ ہے۔ اس کے باوجود مشیر تجارت کوئی فوری علاج بتانے کی بجائے کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی کا نتیجہ 6 ماہ بعد سامنے آئے گا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ جب تک موثر علاج بہم میسر ہو گا مہنگائی کا ڈسا موت سے ہمکنار ہو چکا ہو گا۔ اب کوئی شکوہ کرے تو کس سے کرے۔ ہر طرف ایک نئی فصیل کھڑی ہے جس سے غریب سر ٹکرا ٹکرا کر خود اپنے لہو میں رنگیں ہو گئے ہیں۔ حکمران سمجھ رہے ہیں کہ یہ خوبصورت رنگوں کی برسات ہو رہی ہے۔ تبدیلی کی یہ سب باتیں سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں۔ ان باتوں کو حقیقت کا روپ دھارتے کتنا سمے لگے گا اس کا پتہ شاید خود مشیر تجارت کو بھی نہیں ہے… عوام تو اب کسی بھی وعدے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔