کسی بھی مورخ کیلئے جو خود ان تاریخی واقعات کا حصہ رہا ہوجن کے متعلق وہ لکھ رہا ہوتا ہے واقعات کی غیر جانبدارانہ تصویر کشی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ تاریخی واقعات کی تحریر میں اپنے جذبات۔ احساسات۔ تجربات اور مشاہدات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی حالت پاک و ہند کے مورخین کی ہے۔ 1947کی تقسیم ہند ایک بہت بڑا تاریخی سانحہ تھا جس میں مختلف تاریخی حوالوں کیمطابق دس سے بیس لاکھ بے گناہ انسان مارے گئے۔ انسانیت دم توڑ گئی اور پورا برصغیر خون میں نہا گیا۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے لوگ ہی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ پاک و ہند کے مؤرخین نے جو کچھ بھی اس انسانی المیے کے متعلق لکھا تمام تباہی کا ذمہ دار اپنے مخالف فریق کو ہی ٹھہرایا۔ تعصب کی عینک اتار کر حالات کا تجزیہ شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ دونوں ممالک کے مؤرخین اپنے آپکو درست اور بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ اسلئے 1947 کی تقسیم ہند کی تاریخ اصل حقائق کی بجائے تعصبات کا شکار ہے۔انگریز کسی حد تک غیرجانبدار تھے۔ انکے مشاہدات ہی اصل حقائق ہیں۔
جنہیں صحیح تاریخ کہا جا سکتا ہے۔14اگست کو کیا ہوا۔ یہ تصویر برگیڈئیر فرانسس اینگل نے اپنی بائیوگرافی The Last of the Bengal Lancers میں پیش کی ہے۔ یہ آفیسرGHQ دہلی میں تعینات تھا کہ اسے پاکستان بننے سے صرف چند دن پہلے نئی پاکستان ملٹری اکیڈیمی قائم کرنے کا حکم ملا تو یوں اسے 14اگست کو دہلی سے راولپنڈی تک بذریعہ سڑک سفر کرنا پڑا جسکی تفصیل نیچے دی گئی ہے اور یہی اس دن کی تاریخ ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب پورا برصغیر فسادات کی آگ کی لپیٹ میں تھا۔ انسانی جان کی قیمت ایک معمولی سے جانور جتنی بھی نہ تھی۔ ہندو اور سکھ دونوں ملکر مسلمانوں کے خون کے پیاسے بن گئے اور موجودہ پاکستان کے مسلمان ان دونوں کے خلاف۔ قتل و غارت ہی روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ ان حالات میں جب برگیڈئیر اینگل کو دہلی سے پنڈی تک سفر کرنا پڑا تو پریشانی ایک لازمی امر تھا۔ اسے خود تو اپنی جان کا اتنا خطرہ نہیں تھا کیونکہ انگریزوں کے خلاف کوئی تھا، نہ ہی ان پر حملے ہوئے تھے۔ اسے سب سے زیادہ خطرہ اپنے پرانے ملازم عدالت خان کی زندگی کا تھا ۔وہ ایک مسلمان تھا اور دس سال سے برگیڈئیر اینگل کی خدمت کر رہا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ پاکستان لے جانا چاہتاتھا۔ دہلی اور راولپنڈی کے درمیان تمام راستے بہت ہی غیر محفوظ تھے۔ ہر روز مسلمانوں پر حملوں اور ان کی قتل و غارت کی خبریں آرہی تھیں۔ ایسا ہی کچھ سرحد کی اس طرف بھی ہو رہا تھا۔ بطور ایک انگریز کے اسے یقین تھا کہ اگروہ بذات خود کسی مجمع یا حملہ آوروں میں گھر بھی گیا تو شاید محفوظ رہے۔ اس پر کوئی حملہ نہیں کریگا لیکن اگر عدالت خان اسکے ساتھ ہوا اور ہندو حملہ آور سامنے آگئے تو عدالت خان کی حفاظت ممکن نہ تھی۔ اسکے خیال میں بہتر تھا کہ اسے بذریعہ ٹرین بھیج دیا جائے کیونکہ ٹرینوں پر اس وقت تک حملے شروع نہیں ہوئے تھے۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ بہت سے مسلمان بذریعہ ٹرین شمال کی طرف پاکستان روانہ ہونگے اور انہیں حفاظتی گارڈ بھی مہیا کئے جائینگے۔ لہٰذا برگیڈئیر اینگل نے 13اگست کیلئے عدالت خان کی بذریعہ ٹرین پنڈی کیلئے بکنگ کرادی۔
دن بہت تیزی سے گزرنے لگے۔ تمام اتنظامات مکمل کرنے اور دوستوں کو الوداع کہنے کیلئے اسے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔ وہ خود تو ان انتظامات کی تیاری میں گھرا رہا لیکن عدالت خان نے خاموشی سے اسکا سارا سامان پیک کردیا جو اب کئی درجن صندوقوں تک بڑھ چکا تھا اور یہ تمام صندوق مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔ عدالت خان کے ساتھ13اگست کو وہ دہلی ریلوے کے بڑے اسٹیشن پر پہنچا۔ تمام سامان بھی ساتھ تھا۔ وہاں اسے پتہ چلا کہ پاکستان جانیوالی سپیشل ٹرینوں کے ساتھ تاحال محافظ دستے مہیا نہیں کئے جارہے تھے۔ اس سے بہرحال اسے زیادہ پریشانی اس لئے بھی نہ ہوئی کیونکہ سڑک والے قافلوں کی نسبت ٹرین کے مسافروں پر حملوں کا تاحال کوئی خاص خطرہ نہ تھا۔ اس نے عدالت خان کوتنبیہ کی کہ وہ ہر حالت میں ٹرین کے اندر رہے۔ اسے کسی صورت نہ چھوڑے۔ سامان کا بھی فکر نہ کرے کیونکہ یہ ’’گڈز وین‘‘ میں بند ہوگا۔ اس نے عدالت خان کو یہ کہہ کر الوداع کہا کہ دو یا تین دنوں تک فلیش مین ہوٹل پنڈی ملاقات ہوگی۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس حد تک تقدیر کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
چند دن بعد جو محافظوں کی تحویل میں ٹرینیں بھیجیں گئیں تباہی سے دو چار ہوئیں۔ پاکستان سے بھارت آنیوالی ٹرینیں ہندوئوں سے بھری تھیں اور بھارت سے پاکستان جانیوالی ٹرینیں مسلمانوںسے ۔ دونوں طرف ان لوگوں کو مخالف دھڑوں کے حملوں سے بچانا ممکن نہ تھا۔ ان ٹرینوں پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مخالفین حملہ آور ہوئے اور محافظوں کی درجن بھر تعداد ان لوگوں سے نبٹنے کیلئے بالکل ہی ناکافی تھی۔ ایسے حملوں کی شدت اور ان حملوں کی مکمل منصوبہ بندی کا کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔ مخالفین نے ریلوے سٹیشنوں اور کھلے علاقوں میں گھاتیں لگا رکھی تھیں جہاں ریلوے لائنوں کو یا تو اکھاڑ دیا گیا تھا یا پھر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ حملہ آور مارٹر اور مشین گنوں سے مکمل طور پر لیس ہوتے تھے اور یہ ہتھیار انہوں نے آسام اور برما کی سرحدوں سے حاصل کر رکھے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم میں یہ پورا علاقہ جنگی تھیٹر تھا۔ سب سے بڑی لڑائیاں یہاں لڑی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بہت سا اسلحہ اور گولہ بارود بچ گیا۔ اسے اسلحہ ڈپو تک واپس لانے پر بہت اخراجات اٹھتے تھے۔اخراجات بچانے کی غرض سے ان ہتھیاروں اور گولہ بارود کو وہاں سے ٹرانسپورٹ کرنے کی بجائے بڑے بڑے گڑھے کھود کر وہیں دبا دیا گیا ۔ (جاری)
یران-اسرائیل کشیدگی اور مہنگائی کی لہر
Apr 15, 2024