جمعرات‘ 26ذیقعد 1439 ھ ‘ 9 اگست 2018ء
مولانا فضل الرحمن صدر بننے کے لئے پر تولنے لگے
اول تو یہ کام ممکن ہی نہیں۔ اگر بالفرض وہ ایسا سوچ بھی رہے ہیں تو پھر اس محاذ کاکیا بنے گا جو انہوں نے مجوزہ نئی حکومت کے خلاف گرم کیا ہوا ہے۔ یعنی الیکشن دوبارہ کرانے اور پارلیمنٹ کے اندر و باہر احتجاج کے ان کے پروگرام میں پھر وہ شدت کہاں سے آئے گی جس کا وہ متفاضی ہے۔ اس طرح تو مولانا کی توجہ دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ ایک طرف صدارت کے حصول کی بھاگ دوڑ ہو گی دوسری طرف حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی کوششیں۔ اب دو کشتیوں میں پاﺅں رکھنے والا تو کبھی کامیاب نہیں ہوتا ۔یا تو مولانا سراپا احتجاج کرتے ہوئے جوالا مکھی کا روپ دھار لیں اور آگ لگانے آیا ہوں میں آگ لگا کر جاﺅں گاکی تفسیر بن جائیں۔ یا پھر نیویں نیویں ہو کر اپنی صدارت پکی کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوںسے لابنگ کرتے ہوئے نظر آئیں۔ یہ شعلہ و شبنم والا کھیل زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ ویسے اکثر جماعتیں مولانا کو صدر بنتا دیکھنے پرکبھی متفق نہیں ہوں گی۔ کیونکہ کرسی صدارت کے لئے خاموش طبع متین اور مرنجان قسم کے معمر سیاستدان کی یا ایسی ہی کسی دوسری شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا میں یہ صفات عنقا ہیں۔ وہ سیماب صفت ہیںجہاں ہونگے وہاں کی خیریت ہمیشہ مطلوب ہی رہے گی۔ ان کے لئے قصر صدارت موزوں نہیں سمجھا جائے گا۔اس لئے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
٭........٭........٭
سوئٹزر لینڈ میں شدید گرمی، پولیس کا کتوں کو جوتے پہنانے کا مشورہ
میخانہ¿ یورپ کے اندازواقعی نرالے ہیں۔ اب وہاں انسانوں کی تو بات چھوڑیں جانوروں کو بھی اتنا معتبر بنا دیا گیا ہے کہ ریاستی انتظامیہ ان کے بارے میں عوام کو مشورے دیتی پھر رہی ہے۔ آج کل سوئٹزر لینڈ جیسے حسین سبرسبز دلکش نظاروں والی جنت میں بھی گرمی پڑ رہی ہے۔ یہ وہ میر انیس والی گرمی نہیں کہ: ع
بھن جاتا تھا دانہ جو گرتا تھا زمیں پہ
یہ وہ گرمی ہے جس سے صرف رخسار سرخ ہو جاتے ہیں اور جبیں پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے ہیں۔ اب اتنی سی تمازت بھی اس جنت کے رہنے والوں سے برداشت نہیں ہو رہی۔ انسان تو اپنی حفاظت خود کر لیتے ہیں۔ پولیس والوں کو اور کوئی کام نہیں ملا تو وہ عوام کو مفت میں مشورہ دیتے پھر رہے ہیں کہ باہر نکلتے وقت کتوں کو جوتے پہنائیں تاکہ ان کے پاﺅں نہ جھلسیں۔ یہ مشورہ برحق ہے آخر وہ کتے بھی تو یورپ کے ہیں۔ ذرا ہمارے ہاں نظر ڈالیں تو دھوپ سے تپتی دوپہر میں تار کول کی پگھلتی سڑکوں پر کتوں کو تو چھوڑیں وہ تو مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لاکھوں انسان برہنہ پا رزق کی تگ و دو ہوتے ہیں۔ محنت مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں گرمی بھی یورپ والی گلابی نہیں ہوتی ،سورج آگ اُگل رہا ہوتا ہے۔ چیل بھی انڈے چھوڑ دیتی ہے، کاش کبھی ہماری بھی کوئی حکومت ایسا فرمان جاری کرے کہ کوئی بچہ کوئی مزدور تپتی سڑکوں پر ننگے پیر نہ چلے جس کے پاس جوتی نہ ہوں وہ سرکاری سٹورز سے آکر پہننے کے لئے لے جائے۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
بنی گالا تجاوزات کیس عمران حکومت حل کر کے لوگوں کے لئے مثال بنیں: چیف جسٹس
اب یہ تو عدالت کی ذرہ نوازی ہے کہ وہ خان صاحب پراتنا اعتماد کر رہی ہے۔ بنی گالہ میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ فاضل چیف جسٹس نے شاید عمران خان کا امتحان لینے کے لئے یہ کام ان کے سپرد کر دیا ہے کہ دیکھتے ہیں خان صاحب یہ معاملہ اپنا گھر بچانے کی سوچ کے ساتھ حل کرتے ہیں یا قومی سوچ اور جذبے کے تحت اپنا نقصان قبول کرتے۔ملکی قانون کے مطابق انصاف کا بولا بالا کرتے ہیں۔ اب یہ تو کڑا امتحان لگ رہا ہے۔ اگر خود ہی اپنے ہاتھوں تعمیر کردہ تجاوزات کو گرانا ہوتا تو انسان کھڑی ہی کیوں کرتا۔ اب صرف خان صاحب ہی نہیں ان کے اردگرد کے محلات میں آباد پڑوسی اور دیگر تجاوزات کے شاہکار تعمیر کرنے والے بھی فیصلے کی زد میں آئیں گے اور انہیں بھی اپنی تجاوزات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اب چند روز کی بات ہے۔ دیکھتے ہیں خان صاحب اس امتحان سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں عوام کا حافظہ تو ویسے ہی کمزور ہے۔ وہ اس کیس کو جلدہی دیگر مقدمات کی طرح بھول جائیں گے۔ گیند اب عمران خان کے کورٹ میں ہے۔ تجاوزات صرف بنی گالہ کا مسئلہ نہیں پورے پاکستان میں یہ وباءعام ہے۔ اگر خان صاحب خود انہیں گراتے ہیں اور حکومت کو بھی ملک بھر میں تجاوزات گرانے اورہٹانے کا کہتے ہیں تو ان کے صرف اس ایک فیصلے سے ہی ان کی ہرطرف جے جے کار ہو گی اور وہ بنا کسی مشقت کے ایک بڑا معرکہ سر کر لیں گے۔
٭........٭........٭
شہری کی حج کے نام پر سادہ لوح افراد کو لوٹنے والے گروہ کیخلاف درخواست
یہ نیکیاں کمانے کا سیزن ہے۔ دنیا بھر سے لوگ سعودی عرب ارض مقدس فریضہ¿ حج ادا کرنے جا رہے ہیں کچھ روز بعد مناسک حج شروع ہوں گے۔ اس متبرک کام میں بھی کچھ لوگ اپنی روایتی عیاری اور خباثت کی وجہ سے دو نمبری کر کے مال کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزارت حج کی طرف سے بارہا اشتہارات کے ذریعے عام لوگوں کو خبردار بھی کیا جاتا ہے کہ حکومت کی منظور شدہ حج ٹریول ایجنسیوں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے سفر حج کا پیکج نہ لیں۔ مگر عوام کی اکثریت سادہ لوح ہے۔ اخبار بھی چند فیصد پڑھے لکھے لوگ ہی پڑھتے ہیں۔ عیاری کے چلتے پھرتے نمونے نہایت آسانی سے سادہ لوح افراد کو گھیرتے ہیں انہیں سستے ترین پیکج کے نام پر حج کی سعادت حاصل کرنے کا لالچ دیتے ہیں۔ یہ بدبخت لوگ پرکشش اشتہارات دے کرخوبصورت دفاتر میں بیٹھ کر چکنی چوپڑی باتوں سے ہر حج پر جانے کے خواہشمند سے لاکھوں روپے اینٹھتے ہیں۔جس کے بعد یہ لوگ اور ان کے دفاتر گدھے کے سر کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور ہزاروں افراد اپنی رقم اور پاسپورٹ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ خوف خدا سے بے نیاز ان لالچی افراد کیخلاف سخت قانون موجود ہے۔ مگر اس پر شاذو نادر ہی عمل ہوتا ہے۔ اگر سختی سے ایسا گھناﺅنا کاروبار کرنے والوں کیخلاف سختی سے کارروائی کی جائے تو ہزاروں پاکستانی ہر سال لٹنے سے بچ سکتے ہیں۔
٭........٭........٭