نواز شریف کی نااہلی کے تاثرات اور خدشات سے ملک بھر میں غیر یقینی کی کیفیت بڑھی ہے اور سیاسی خدشات پاکستان کے کریڈٹ پروفائل پر منفی اثرات ڈالیں گے۔ عوامی اور سیاسی خدشات کو دور کرنے کیلئے میاں نواز شریف نے 9 اگست کو اسلام آباد سے لاہور جانے کا پروگرام بنایا ہے جی ٹی روڈ پر واقع ہر شہر میں وہ عوام سے خطاب کریں گے ۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا نواز شریف کا جی ٹی روڈ کے ذریعے جلوس کی شکل میں لاہور جانا پسند نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جی ٹی روڈ پر جلوس کا شریفوں کا فساد برپا کرنے کا خواب ہم کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے ۔ ہم ان کے جلوسوں میں دمادم مست قلندر کریں گے۔عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ شریف کاررواں کا مقصد سپریم کورٹ کو کمزور اور نیب پر دباؤ ڈالنا ہے۔
قارئین کرام! میاں نواز شریف اقامے کی بنیاد پر نہیں بلکہ تنخواہ چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیئے گئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں قوانین اسی طرح بنائے جاتے ہیں فیصلے اسی طرح کیے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کیلئے یہ مرحلہ مزید مشکل اس لیے بھی رہا کہ شہباز شریف کیلئے پنجاب ایک کھیل بن گیا ہے وہ اسے چھوڑنا چاہیں تو بھی نہیں چھوڑ پا رہے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ پنجاب پر گرفت کمزور ہو جانے کا خدشہ ہے۔ لیکن ان کیلئے بھی کئی مسائل ہیں۔ فیصلہ ساز قوتوں سے معاملات کس حد تک طے ہوتے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں شہباز شریف بھی اتنی ہی قوت سے جیت سکیں‘ جتنی طاقت سے میاں نواز شریف جیتے تھے ایک خدشہ بہرحال شہباز شریف صاحب کے ساتھ لگا رہے گا کہ اگر وہ ہار گئے تو پنجاب کی وزارت عالیہ بھی گئی اور وزارت عظمیٰ بھی۔ اس وقت یہ بھی پتا چل جائے گا کہ میاں نواز شریف نے جس فرد پر اعتماد کرکے 45روز کیلئے وزیر اعظم بنایا ہے وہ اس وقت کیا رویہ رکھیں گے۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار انگشت بدنداں ہیں کہ آخر نواز شریف کا وژن اور ان کی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ کیا تھا۔ ان کے پورے دور میں عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے بڑے بڑے منصونوں‘ سڑکوں‘ شاہراہوں کی تعمیر ‘ موٹرویز اور بسوں وغیرہ کے چلانے پر زور دیا گیا جبکہ ملک کے بیس کروڑ عوام بنیادی ضروریات سے بھی محروم رہے۔ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو نئی کابینہ میں بھی اسی عہدے پر براجمان ہیں‘ وطن عزیز کو بیرونی قرضوں کے جال میں اس بری طرح جکڑ رکھ دیا ہے کہ ملک کا بچہ بچہ تقریباً سوا لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ یہ قرضے کب اور کون ادا کرے گا‘ میاں نواز شریف کے ’’وژن‘‘ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے‘ اس لیے کہ ان کی تمام پالیسیوں کا تعلق صنعت و تجارت اور بڑے منصوبوں پر رہا۔ بھارت‘ عرب ممالک اور دیگر حکومتوں سے تعلقات اور ان ملکوں کیلئے پے درپے دوروں میں میاں نواز شریف تجارت کے فروغ کی باتیں سب سے زیادہ کرتے تھے‘ جو ان کے کاروبار اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ضروری تھا۔ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی چونکہ تجارت پیشہ فرد ہیں‘ اس لیے وہی نواز شریف کے جانشین ہوسکتے تھے۔ مسلم لیگ نے نواز شریف کی قیادت میں 2013ء کے انتخابات سے پہلے عام لوگوں کی ابتر حالت کو دور کرنے کے جو وعدے کیے تھے وہ چار سال میں بھی پورے نہ ہوسکے تو شاہد خاقان عباسی دس سال کے منصوبوں کو45دنوں میں کیسے پورا کردکھائیں گے ؟ ان کی جانب سے دس ماہ کی مدت یہ ظاہر کرتی ہے کہ عام خیال کے مطابق میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ اپنے بھائی میاں شہباز شریف یا ان کی اولاد کو دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اہل وطن کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کو اب تک مالی بحران کا سامنا تھا‘ جس کی وجہ سے عمران خان کوامید پیدا ہو چلی تھی کہ وہ شریف خاندان کے خلاف تحریک چلا کر اور خود وزیراعظم بن کر عوام کو غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کے کئی افراد پر اخلاق و کردار کے حوالے سے جو معاملات اب سامنے آنے لگے ہیں انہیں دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر تحریک انصاف خدانخواستہ برسراقتدار آگئی تو ملک شدید بد اخلاقی بحران کا بھی شکار ہو جائے گا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مطمئن و مسرور ہونے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا‘ لیکن گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ان کے حمایت یافتہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو وزارت عظمیٰ کیلئے ہونے والی رائے شماری میں شاہد خاقان عباسی کے دو سو اکیس ووٹوں کے مقابلے میں صرف تینتیس ووٹ ملے تو عمران خان کو یقیناً دھچکا لگا ہوگا۔ شیخ رشید سے زیادہ تو پیپلز پارٹی کے امیدوار نوید قمر کو سینتالیس ووٹ مل گئے۔ بیس سال سے طلاق یافتہ اپنی یہودی نژاد بیوی جمائما سے عمران خان کا تعلق اب تک برقرار ہے۔ ذاتی اخلاق و کردار کے حوالے سے ‘ نیز سیاست میں بدکلامی اور گالی گلوچ کا کلچر متعارف کرانے والے عمران خان کے خلاف کئی مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان کے جلسوں میں نوجوانوں کی جانب سے خواتین کو چھیڑنے اور انہیں تنگ کرنے کی خبروں سے لوگ پہلے ہی پریشان تھے کہ اب تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے ایک پریس کانفرنس میں کھل کر کہہ دیا ہے کہ خود عمران خان کے ہاتھوں خواتین کی عزت محفوظ نہیں۔ عائشہ گلا لئی کے مطابق وہ بلیک بیری موبائل سے خواتین کو نازیبا پیغامات بھیجتے (میسج کرتے) ہیں‘ کیونکہ اس موبائل سے ان پیغامات کا دوبارہ پتا نہیں لگایا جاسکتا۔ عائشہ گلا لئی نے تو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر عمران خان کو بدکردار تک کہہ دیا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے عمران خان پر عائد الزامات کو سنگین قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریک انصاف نے جوابی الزام میں کہا ہے کہ عائشہ گلا لئی نے حکمراں مسلم لیگ سے پانچ کروڑ روپے لے کر عمران خان کی کردار کشی کی ہے۔ عمران خان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں‘ انہیں ثابت کرنا اصولی طور پر تو عائشہ گلا لئی کی ذمے داری ہے۔ لیکن عمران خان کے فارمولے کے مطابق ‘ جو انہوں نے شریف خاندان و دیگر کے خلاف مقدمے کے دوران استعمال کیا‘ عمران خان کو خود اپنے اوپر عائد الزامات کا دفاع کرنا اور جواب دینا چاہیئے۔ عائشہ گلا لئی کے الزامات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خود انہیں اور دوسرے سیاسی و سماجی رہنماؤں کو آگے بڑھ کر تحقیقات کا مطالبہ کرن چاہیئے تاکہ دہشت گردی اور مالی بدعنوانیوں کے علاوہ سیاست کو فحاشی اور بد کرداری سے بھی پاک کیا جاسکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38