اِس صورتحال نے ایمن الظواہری کے سابق اخوان اراکین کو ایک بار پھر اسلامی نظام کے قیام کی خاطر جمہوریت کی بجائے اندھی قوت کے استعمال کو ناگزیر قرار دینے کا موقع دے دیا ہے۔ چنانچہ ایمن الظواہری نے گذشتہ روز اپنے پندرہ منٹ کے آڈیوپیغام میں ایک بار پھر دُنیائے اسلام کی توجہ مصر اور شام کی موجودہ صورتِ حال کی جانب مبذول کراتے ہوئے مسلمان سیاستدانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کے حق میں بیلٹ باکس کو رد کر دیں۔ جمہوری عمل کا راستہ ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ امریکی عزائم سے آگاہ رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مصری فوج کی قیادت امریکہ کے دست بستہ غلاموں پر مشتمل ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’مغربی دُنیا نے جمہوریت پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ مغربی دُنیا سے باہر جمہوری عمل کی فقط اُن ممالک کو اجازت دی جاتی ہے جو مغربی سیاسی شطرنج کے مُہرے ہوں۔‘‘مسلمانوں کی حیاتِ نو کے لیے سرگرمِ کار اخوان المسلمون کے اِس سابق رُکن اور القاعدہ کے موجودہ رہنما کی جانب سے جمہوری عمل کی اِس مخالفت پر مجھے اقبال کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ’’ سامراجی سیاست نے حرم کے تن میں بُت خانے کی رُوح جاری و ساری کر دی ہے۔‘‘میں اِن دنوں جب بھی شام میں خانہ جنگی کا خیال کرتا ہوں تو مجھے اقبال کی نظم بعنوان ’’پیرس کی مسجد‘‘ یاد آتی ہے:
مری نگاہ کمالِ ہُنر کو کیا دیکھے ۔۔۔۔ کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے ۔۔۔ تنِ حرم میں چُھپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ
یہ بُت کدہ اُنھی غارت گروں کی ہے تعمیر ۔۔۔۔ دمشق ہاتھ سے جن کے ہُوا ہے ویرانہ
گذشتہ پون صدی کے دوران سامراجی غارت گروں نے ’’حرم کے تن میں بُت خانے کی رُوح چُھپادینے‘‘ کی جدوجہدبڑے تسلسل کے ساتھ جاری رکھی ہے۔ اِس کے مقابلے میں اخوان المسلمون کی سی عرب تہذیبی اورسیاسی جماعتوں نے اور الازہراور دمشق کی دانشگاہوں میں پروان چڑھنے والی فکر و نظر کا فیضان بھی جاری ہے۔ اِس فیضان کا خیال کرتا ہوں تو مجھے دمشق یونیورسٹی میں شعبۂ عقائد و ادیان کے پروفیسر محمد سعید رمضان البوتی یاد آتے ہیں اور اُن کا ایک مقالہ بعنوان ’’اقبال کے ساتھ ایک رتجگا‘‘(I Stayed up at Night with Muhammad Iqbal) مجھے اپنے جادو کی گرفت میں لے لیتا ہے۔ البوتی عرب دنیا کی عصری صورتِ حال پر مضطرب ہیں اور رات بھر اِس صورتِ حال پر علامہ اقبال کی مقدس بے چینی سے تڑپتے ہوئے اشعار پڑھتے چلے جاتے ہیں اوربعدازاں اقبال کے ساتھ اِس روحانی رفاقت کے احوال و مقامات اِ س مقالے میں قلمبند کر دیتے ہیں۔ دمشق یونیورسٹی میں فکرِ اقبال کی روشنی میں دُنیائے اسلام کی حیاتِ نو کا جو سامان ہو رہا ہے اُس کا خیال کرتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کے سامراجی غارت گر بغداد کے بعد دمشق کی اِس دانش گاہ کی غارت گری میں اب تک ناکام ہیں۔
شیخ محمد سعید رمضان البوتی عرب دُنیا کے چند انتہائی با اثر دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ شام کے نامور دانشور البوتی دینیات اور اسلامی قانون میں اختصاص رکھتے ہیں۔ آپ آج سے نصف صدی پیشترپہلی مرتبہ دمشق یونیورسٹی کے کلیۂ قانون کے ڈین مقرر ہوئے تھے۔ آپ چالیس کتابوں کے مصنف، رائل سوسائٹی برائے اسلامی ثقافت، امان (اردن) اور آکسفورڈ اکیڈمی انگلستان کے رُکن ہیں۔ آپ کا دائرۂ عمل دمشق یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف سے لے کر منبر و محراب تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کا یہ مقالہ پہلے پہل ۳۷۹۱ء میں بیک وقت متعدد عرب رسائل و جرائد میں شائع ہوا تھا۔اِس مقالے کی شانِ نزول یہ ہے کہ پروفیسر البوتی عرب دُنیا کی عصری صورتِ حال پر مضطرب ہیں۔ اضطراب کے اِس عالم میں وہ اقبال کی شاعری کی رفاقت میں رات بھر جاگتے اور اقبال کے اشعار سے رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اِس عالم میں وہ مغرب کے مَے خانوں میں بدمست عرب نوجوانوں کواپنے مرشدِ کامل اور’’ملتِ اسلامیہ کے مجددِ اعظم ‘‘علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفے کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ آج کے مسلمان نوجوان کو پیرویِٔ مغربی کی روش ترک کر کے اقبال کی فکری قیادت میں اپنی خودی کی تعمیر اور اپنی خود مختاری کی بازیافت کی راہ اپنانی چاہیے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر البوتی نے آج سے چالیس برس پیشتر عرب نوجوانوں کو اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی جو صدا دی تھی اُس صدائے دل نے بالآخر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ آج کی عرب دنیا اپنے سلاطین و ملوک تک اقبال کا جمہوری انقلابی پیغام پہنچانے میں مصروف ہے۔ خطے میں مغربی مفادات پراس پیغام کے تباہ کن اثرات سے امریکہ اور اُس کے نیٹو اتحادی بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مغربی سامراجی طاقتیں ایک بارپھر دمشق کو تباہ و برباد کر کے رکھ دینا چاہتی ہیں مگراب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ بقول احمد ندیم قاسمی، ع: ہو گئے اپنے طراروں میں گرفتار آہُو! … (ختم شد)
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024