اگر تو انہوں نے اپنے کہے کی لاج رکھتے ہوئے بھارتی ایجنٹ کیمرون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں پاکستان پر دشنام طرازی کا سبق سکھایا ہوتا جس کی جھلک کیمرون زرداری ملاقات کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی نظر آرہی ہوتی تو شائد قوم کے دل میں ان کیلئے تھوڑا بہت نرم گوشہ پیدا ہوجاتا مگر ادھر سے تو سوائے لوٹ پوٹ ہونے کے اور کوئی ہوا ہی نہ چلی اس لئے برمنگھم کے پارٹی ورکروں کے اجتماع میں کنونشن ہال کے اندر اور باہر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود سینہ کوبی، توتکار اور جوتم پیزار کے جو مناظر سامنے آئے وہ ”حق بحقدار رسید“ کی گواہی ہے۔
کنونشن ہال کے اندر تو اندر کے خوف کے غلبہ سے سرکاری ٹی وی کیمرے کے سوا کسی دوسرے میڈیا مین اور کسی نجی ٹی وی چینل کے کیمرے کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ موبائل فون تک باہر دھر لئے گئے، پھر بھی اندر سے خبر نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جنونی بش کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ اپنے مفتوحہ عراق میں سینہ پھلا کر اپنے فوجیوں اور حاشیہ نشینوں کو الوداعی سلامی دینے گئے تھے کہ انکے سامنے بیٹھے غیور عراقی صحافی نے انکی جانب اپنے دونوں جوتے یکے بعد دیگرے اچھال کر جوتا ماری کو ضرب المثال بنا دیا۔ کچھ ایسی ہی ندامت مقبوضہ کشمیر میں فوجی جکڑ بندیاں کرانے والے بھارتی وزیر داخلہ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقہ انتخاب میں اٹھانا پڑی جہاں پنڈال میں سے جوتا اچھل کر ان کی ڈائس کے سامنے آگرا اور اب اپنی ہی پارٹی کے اجتماع میں پارٹی شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری کو اپنے ہی پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے ”گو زرداری گو“ کے فلک شگاف نعرے سننا پڑے اور اجتماع کی اگلی صفوں میں موجود ایک ادھیڑ عمر جیالے نے تو حد ہی کردی۔ انہیں اپنے جوتوں کا آئینہ دکھا دیا۔ وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کنونشن ہال سے باہر نکلے تو میڈیا پرسنز کے گھیرے میں آکر ہال کے اندر ہونے والی جوتم پیزاری کی تصدیق کردی اور ساتھ ہی اسے ”بیرونی عناصر“ کی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اجتماع کی پچھلی صفوں میں سے کسی نے ایسی شرارت کی ہے تو اسے یوں اچھالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ انہوں نے تو دانشمندی کی، واقعہ کو تسلیم کرلیا مگر صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر اجتماع میں صدر مملکت کے سامنے آنکھیں موند کر بیٹھے تھے اس لئے انہیں ایسا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہوتا ہی نظر نہیں آیا۔ اگر وہ ایوان صدر کی ہزیمت سے متعلق کسی واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو انہیں تردیدی فرائض سرانجام دینے میں دقت پیش آسکتی ہے اس لئے انہوں نے دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری کا گُر سیکھ لیا ہے اور وہ گُر ہے ہمہ وقت اپنی آنکھیں موندے رکھنے کا تاکہ وہ گواہی دینے کے قابل ہوسکیں کہ انہوں نے تو ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔
بھئی اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آپ بے شک سورج نکلنے اور پھر سورج گرہن لگنے کی تصدیق نہ کریں، مگر دنیا میں تو ایک ہنگامہ بپا ہے۔ ”ظلِ الٰہی“ فرانس میں اپنے پانچ ایکڑ پر محیط نشاط انگیز پیلس میں پہنچے تو فرانس کے میڈیا نے، جہاں کسی ”مہربان“ کی لابنگ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا، صدر ذی وقار کی شان میں وہ قصیدے لکھے کہ ہمارا آزاد میڈیا بھی ایسی جرات نہ کرپاتا۔ جب قوم بدترین سیلاب میں ڈوبی ہو اور سیلاب میں گھرے بدنصیبوں کی امداد کیلئے حکومتی انتظامی مشینری کی کسی حرکت کا شائبہ تک نظر نہ آرہا ہو تو جناب! مغربی میڈیا تو کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ ہمارے صدر محترم کا فرانس میں استقبال ایسی ہی چنگھاڑتی ہوئی خبروں کی شہ سرخیوں، تنقیدی تبصروں اور احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ہوا۔
فرانس سے برطانیہ کے پانچ روزہ دورے کیلئے وہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے جین شرٹ کا اہتمام ہی کررہے تھے کہ لندن کی فضا پہلے ہی ان کیلئے لاوا بن گئی۔ برطانوی کابینہ کے رکن شاہد ملک پہلے ہی انہیں مشورے دئیے جا رہے تھے کہ ٹوری وزیراعظم کیمرون کی بدتمیزی کا جواب وہ اپنا دورہ برطانیہ منسوخ کرکے دیں اور ملک واپس جاکر سیلاب میں گھرے اپنے پاکستانی بھائیوں کی خبر گیری کریں۔ برطانوی پریس بھی انہیں ان کی اصلیت دکھانے کے عزم پر کاربند نظر آیا۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر ”کیمرونی حرکت“ کے بعد صدر پاکستان کی برطانیہ آمد کو خودغرضی سے تعبیر کررہے تھے اور ان کے لنچ کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے تھے۔ فرحت اللہ بابر نے اپنی موندی ہوئی آنکھوں سے کچھ نہ دیکھا ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پوری دنیا کو تو ہمارے صدر ذی وقار کی ”پذیرائی“ نظر آرہی تھی۔ وزیراعظم گیلانی جو خود بھی سیلاب زدگان کی خبرگیری کی بجائے اپنے پارٹی امیدواروں کے انتخابی جلسوں میں لگے ہوئے تھے، صدر مملکت کیلئے کھلنے والی تنقیدی توپوں کے سامنے آئے اور صفائی پیش کی کہ حکومت تو میں چلا رہا ہوں اور سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ملک میں موجود ہوں۔ صدر صاحب ملک سے باہر چلے گئے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے، ”میں جو ہوں“ صدر صاحب نے بھی برطانیہ روانہ ہونے سے پہلے بڑھک لگا دی ”کیمرون سے ملاقات میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرونگا، انہیں حقائق بتاﺅنگا اور قوم کے جذبات کی ترجمانی کرونگا“.... باضابطہ ملاقات سے پہلے عشائیہ ہوا۔ کیمرون کے سامنے صدر صاحب کی آنکھیں نیچی اور بھویں ناچتی نظر آئیں اور باضابطہ ملاقات تو بھیگی بلی والے منظر کو شرما رہی تھی۔ وہ کیمرون کو پاکستان کیخلاف اپنے زہریلے ریمارکس واپس لینے پر تو کیا قائل یا مجبور کرتے، وہ تو اپنے طرزعمل سے کیمرون کے ان ریمارکس کو درست تسلیم کرا رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگوئج ہی نہیں، اصلی تے وڈّی لینگوئج بھی کیمرون کیلئے ان کی تابعداری کی چغلی کھا رہی تھی۔
پھر جناب، فرانس اور برطانیہ کے پریس میں، سڑکوں پر اور برمنگھم کے کنونشن ہال کے اندر اور باہر ان کی جو ”پذیرائی“ ہوئی کیا وہ اسکے مستحق نہیں تھے؟ آپ اسے میڈیا کی نگاہوں میں آنے والی سیاسی اداکاری بتا رہے ہیں۔ آپ ملک واپس آکر سیلاب زدگان کے درمیان آئیں (خدا آپ کو اسکی توفیق بھی دے) تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائیگا کہ آپ کی اپنی سیاست اس وقت کس مقام پر کھڑی ہے۔ آپ تو بیگانوں کی صفوں میں ہی نہیں، اپنی صفوں میں سے بھی تنقید اور نفرت وصول کررہے ہیں۔ پھر آپ کی سیاسی بصیرت کی داد تو آپ کے بتائے گئے سیاسی اداکار ہی سمیٹیں گے، اور اب تو حضور والا، آپ کا اپنا حلقہ انتخاب بھی سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے، لوگ سیلاب کے پانی سے ہی نہیں، بھوک اور وبائی امراض سے بھی مر رہے ہیں۔ روم جل رہا ہو اور نیرو باہر بیٹھا بانسری بجا رہا ہو، پھر بھی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بے فکر ہو تو سمجھ لیجئے، صرف صدارتی ترجمان نے نہیں، پورے ایوان صدر نے آنکھیں موند رکھی ہیں، آنکھیں ہی نہیں موندیں، کان بھی لپیٹ رکھے ہیں اس لئے سرد گرم کا احساس بھی ان کیلئے کیا معنی رکھتا ہے
”حضرت“ کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں لگے
ایسی موج کا مداوا تو پھر فوج نے ہی کرنا ہے، کیوں جناب؟
کنونشن ہال کے اندر تو اندر کے خوف کے غلبہ سے سرکاری ٹی وی کیمرے کے سوا کسی دوسرے میڈیا مین اور کسی نجی ٹی وی چینل کے کیمرے کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ موبائل فون تک باہر دھر لئے گئے، پھر بھی اندر سے خبر نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جنونی بش کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ اپنے مفتوحہ عراق میں سینہ پھلا کر اپنے فوجیوں اور حاشیہ نشینوں کو الوداعی سلامی دینے گئے تھے کہ انکے سامنے بیٹھے غیور عراقی صحافی نے انکی جانب اپنے دونوں جوتے یکے بعد دیگرے اچھال کر جوتا ماری کو ضرب المثال بنا دیا۔ کچھ ایسی ہی ندامت مقبوضہ کشمیر میں فوجی جکڑ بندیاں کرانے والے بھارتی وزیر داخلہ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقہ انتخاب میں اٹھانا پڑی جہاں پنڈال میں سے جوتا اچھل کر ان کی ڈائس کے سامنے آگرا اور اب اپنی ہی پارٹی کے اجتماع میں پارٹی شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری کو اپنے ہی پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے ”گو زرداری گو“ کے فلک شگاف نعرے سننا پڑے اور اجتماع کی اگلی صفوں میں موجود ایک ادھیڑ عمر جیالے نے تو حد ہی کردی۔ انہیں اپنے جوتوں کا آئینہ دکھا دیا۔ وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کنونشن ہال سے باہر نکلے تو میڈیا پرسنز کے گھیرے میں آکر ہال کے اندر ہونے والی جوتم پیزاری کی تصدیق کردی اور ساتھ ہی اسے ”بیرونی عناصر“ کی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اجتماع کی پچھلی صفوں میں سے کسی نے ایسی شرارت کی ہے تو اسے یوں اچھالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ انہوں نے تو دانشمندی کی، واقعہ کو تسلیم کرلیا مگر صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر اجتماع میں صدر مملکت کے سامنے آنکھیں موند کر بیٹھے تھے اس لئے انہیں ایسا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہوتا ہی نظر نہیں آیا۔ اگر وہ ایوان صدر کی ہزیمت سے متعلق کسی واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو انہیں تردیدی فرائض سرانجام دینے میں دقت پیش آسکتی ہے اس لئے انہوں نے دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری کا گُر سیکھ لیا ہے اور وہ گُر ہے ہمہ وقت اپنی آنکھیں موندے رکھنے کا تاکہ وہ گواہی دینے کے قابل ہوسکیں کہ انہوں نے تو ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔
بھئی اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آپ بے شک سورج نکلنے اور پھر سورج گرہن لگنے کی تصدیق نہ کریں، مگر دنیا میں تو ایک ہنگامہ بپا ہے۔ ”ظلِ الٰہی“ فرانس میں اپنے پانچ ایکڑ پر محیط نشاط انگیز پیلس میں پہنچے تو فرانس کے میڈیا نے، جہاں کسی ”مہربان“ کی لابنگ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا، صدر ذی وقار کی شان میں وہ قصیدے لکھے کہ ہمارا آزاد میڈیا بھی ایسی جرات نہ کرپاتا۔ جب قوم بدترین سیلاب میں ڈوبی ہو اور سیلاب میں گھرے بدنصیبوں کی امداد کیلئے حکومتی انتظامی مشینری کی کسی حرکت کا شائبہ تک نظر نہ آرہا ہو تو جناب! مغربی میڈیا تو کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ ہمارے صدر محترم کا فرانس میں استقبال ایسی ہی چنگھاڑتی ہوئی خبروں کی شہ سرخیوں، تنقیدی تبصروں اور احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ہوا۔
فرانس سے برطانیہ کے پانچ روزہ دورے کیلئے وہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے جین شرٹ کا اہتمام ہی کررہے تھے کہ لندن کی فضا پہلے ہی ان کیلئے لاوا بن گئی۔ برطانوی کابینہ کے رکن شاہد ملک پہلے ہی انہیں مشورے دئیے جا رہے تھے کہ ٹوری وزیراعظم کیمرون کی بدتمیزی کا جواب وہ اپنا دورہ برطانیہ منسوخ کرکے دیں اور ملک واپس جاکر سیلاب میں گھرے اپنے پاکستانی بھائیوں کی خبر گیری کریں۔ برطانوی پریس بھی انہیں ان کی اصلیت دکھانے کے عزم پر کاربند نظر آیا۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر ”کیمرونی حرکت“ کے بعد صدر پاکستان کی برطانیہ آمد کو خودغرضی سے تعبیر کررہے تھے اور ان کے لنچ کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے تھے۔ فرحت اللہ بابر نے اپنی موندی ہوئی آنکھوں سے کچھ نہ دیکھا ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پوری دنیا کو تو ہمارے صدر ذی وقار کی ”پذیرائی“ نظر آرہی تھی۔ وزیراعظم گیلانی جو خود بھی سیلاب زدگان کی خبرگیری کی بجائے اپنے پارٹی امیدواروں کے انتخابی جلسوں میں لگے ہوئے تھے، صدر مملکت کیلئے کھلنے والی تنقیدی توپوں کے سامنے آئے اور صفائی پیش کی کہ حکومت تو میں چلا رہا ہوں اور سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ملک میں موجود ہوں۔ صدر صاحب ملک سے باہر چلے گئے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے، ”میں جو ہوں“ صدر صاحب نے بھی برطانیہ روانہ ہونے سے پہلے بڑھک لگا دی ”کیمرون سے ملاقات میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرونگا، انہیں حقائق بتاﺅنگا اور قوم کے جذبات کی ترجمانی کرونگا“.... باضابطہ ملاقات سے پہلے عشائیہ ہوا۔ کیمرون کے سامنے صدر صاحب کی آنکھیں نیچی اور بھویں ناچتی نظر آئیں اور باضابطہ ملاقات تو بھیگی بلی والے منظر کو شرما رہی تھی۔ وہ کیمرون کو پاکستان کیخلاف اپنے زہریلے ریمارکس واپس لینے پر تو کیا قائل یا مجبور کرتے، وہ تو اپنے طرزعمل سے کیمرون کے ان ریمارکس کو درست تسلیم کرا رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگوئج ہی نہیں، اصلی تے وڈّی لینگوئج بھی کیمرون کیلئے ان کی تابعداری کی چغلی کھا رہی تھی۔
پھر جناب، فرانس اور برطانیہ کے پریس میں، سڑکوں پر اور برمنگھم کے کنونشن ہال کے اندر اور باہر ان کی جو ”پذیرائی“ ہوئی کیا وہ اسکے مستحق نہیں تھے؟ آپ اسے میڈیا کی نگاہوں میں آنے والی سیاسی اداکاری بتا رہے ہیں۔ آپ ملک واپس آکر سیلاب زدگان کے درمیان آئیں (خدا آپ کو اسکی توفیق بھی دے) تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائیگا کہ آپ کی اپنی سیاست اس وقت کس مقام پر کھڑی ہے۔ آپ تو بیگانوں کی صفوں میں ہی نہیں، اپنی صفوں میں سے بھی تنقید اور نفرت وصول کررہے ہیں۔ پھر آپ کی سیاسی بصیرت کی داد تو آپ کے بتائے گئے سیاسی اداکار ہی سمیٹیں گے، اور اب تو حضور والا، آپ کا اپنا حلقہ انتخاب بھی سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے، لوگ سیلاب کے پانی سے ہی نہیں، بھوک اور وبائی امراض سے بھی مر رہے ہیں۔ روم جل رہا ہو اور نیرو باہر بیٹھا بانسری بجا رہا ہو، پھر بھی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بے فکر ہو تو سمجھ لیجئے، صرف صدارتی ترجمان نے نہیں، پورے ایوان صدر نے آنکھیں موند رکھی ہیں، آنکھیں ہی نہیں موندیں، کان بھی لپیٹ رکھے ہیں اس لئے سرد گرم کا احساس بھی ان کیلئے کیا معنی رکھتا ہے
”حضرت“ کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں لگے
ایسی موج کا مداوا تو پھر فوج نے ہی کرنا ہے، کیوں جناب؟