دانش کدہ کے مکیں کہتے ہیں کہ انسان عہدوں سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کو اسکا کردار بڑا بناتا ہے۔ عہدے کے لحاظ سے تو روشن اختر نصیر الدین شاہ بھی مغلیہ حکمرانی میں بطور چودھویں شنشہاہ، تخت نشین ہوئے تھے لیکن اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے جو یادیں وہ تاریخ میں چھوڑ گئے انکی بنا پر مورخ انہیں ‘‘محمد شاہ رنگیلا’’ کے نام سے یاد کرتا ہے اور وہ بادشاہ سے زیادہ مسخرے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس سباق کچھ دوست کہیں گے کہ بادشاہوں کے مزاج پر ایسی کونسی حیرانی۔ وہ انڈہ دیں یا بچہ، انکا ہر فعل ہر قسم کی تنقید یا احتساب سے مبرا ہوتا ہے۔ تو ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اس قسم کے سانحے صرف بادشاہت سے ہی جْڑے نہیں ہوتے۔ دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں اس کے معرض وجود میں آنے کے دن کے ساتھ ہی وقتاً فوقتا۔ ‘‘محمد شاہ رنگیلا’’ جیسی قباحتیں اسکے ماتھے کا جھومر بنتی رہی ہیں اور اسکی کئی ایک زندہ مثالیں آج کے دور میں بھی موجود ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کچھ exceptions کی بنا پر اگر گورنر جنرل ملک غلام محمد کو اس ضمن میں استشناء دے بھی دیا جائے تو جنرل یحییٰ خان کی شخصیت اس سباق ایک ایسی نادر مثال ہے جس میں حرف بہ حرف اور قدم بہ قدم محمد شاہ رنگیلا کی ذات کا ایکشن ری پلے نظر آتا ہے۔ چلیں یہ تو ماضی بعید کی باتیں ہو گئیں۔ ماضی قریب میں بھی ایسی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں جہاں حرمت والے اداروں میں بیٹھے کچھ لوگوں کے کارناموں کی وجہ سے ورلڈ انڈکس میں انصاف کے معیار کے اعتبار سے ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہ بھی ہمارے لیئے عبرت کا مقام ہے۔ ایسے کرداروں کے گن گن کر نام لیئے جا سکتے ہیں جنکی وجہ سے ہم اس معراج سے سرفراز ہوئے لیکن دوسری طرف انہی ناسوروں کی بھیڑ میں ایسے ایسے کردار بھی نظر آتے ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں اپنی اعلیٰ اقدار کی بدولت وقار کی ایک علامت کے طور پر اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدلیہ جیسے مقدس ادارے میں جسٹس کارنیلئس، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس اور پولیس جیسے بدنام زمانہ ڈیپارٹمنٹ میں افضل شگری، شعیب سڈل، ذولفقار چیمہ، حاجی حبیب الرحمن اور کئی ایک ایسے لوگوں کے نام شامل ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ خیر یہ تو تھی اک جھلک کچھ ان روشن چراغوں کی جنھوں نے اعلی عہدوں پر بیٹھنے کے بعد بھی اپنی اعلیٰ اقدار کا بھرم رکھا۔ لیکن قارئین یہاں پر گدڑی کے کچھ ایسے لعل بھی ہیں جنکا سفر ہی scratch سے شروع ہوا لیکن آج وہ اپنی محنت لگن اور اعلیٰ کردار کی بدولت مملکت خدا داد پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک وہاں کی سوسائٹی میں اس مقام کی معراج تک پہنچ گئے جنکا ہمارے معاشرے میں محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس دوست کا ذکر کرنے چلا ہوں اس کا نام راجہ یاسین ہے۔ جس نے بیشک برطانیہ میں اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے کیا لیکن اوج قمر کی مثال بنے۔ آج یہ شخص تیسری مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ کا منتخب ممبر اور ٹریڈ انوائے فار پاکستان کے عہدے پر فائز ہے۔ یہ کہانی ہے اس مِتھ کی کہ انسان عہدوں سے بڑا نہیں ہوتا، اپنے کردار اور اپنی محنت کی بدولت منزلیں اور عہدے خود بخود اسکے پاؤں کی زینت بنتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک راجہ یاسین کی نہیں، اسی طرح کا وہاں ایک اور ہیرا نعیم نقشبندی بھی ہے جو وہاں او پی ڈبلیو سی کا بانی چیرمین ہے اور کمیونٹی میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جب بات ہوتی ہے تو پاکستان میں انکے فلاحی پراجیکٹس کے علاوہ جو بات انکو سب سے زیادہ سرفراز کرتی ہے وہ انکی یہ صفت ہے کہ یہ پاکستان کا وہ اثاثہ ہیں جو بیرون ملک سے اسقدر کثیر سرمایہ پاکستان بھیجتے ہیں کہ اگر یہ اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو شائد خاکم بدھن پاکستان مفلوج ہو کر رہ جائے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کو بدلے میں پاکستان کیا دے رہا ہے۔ اس سباق زمینی حقائق جو کتھا کہانیاں اور ان سے جْڑے اعداد و شمار بیان کرتے ہیں وہ مایوس کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہیں۔ بلاشبہ ان مسائل سے نمٹنے کیلیئے حکومت کی طرف سے اورسیز پاکستان فاونڈیشن اور اورسیز پاکستانی کمیشن پنجاب جیسے ادارے قائم کیئے گئے لیکن ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ red tapism کے آگے کس کی مجال، یہاں پر تو ایوب جیسا صدر پاکستان اور امیر محمد خان جیسے گورنر ایک پٹواری کے آگے بے بس نظر آئے جسکی تازہ مثال یہ ہے کہ اوورسیز پاکستان فاونڈیشن پچھلے کئی ماہ سے اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ وہ اپنے طور پر پوری دنیا سے اوورسیز پاکستانی بلوا کر ایک کنوینشن منعقد کروائے اور انکے مسائل پر بات کرے لیکن اسی پرانی ڈگر پر چلتی مقامی بیوروکریسی کی طرف سے ایسے ایسے عذر گھڑے گئے اور ایسے لمحات بھی آئے کہ اس قسم کے کنوینشن کا انعقاد ناممکن نظر آ رہا تھا لیکن ایسے میں برطانیہ میں رہنے والی ایک با اثر کاروباری شخصیت سید قمر رضا جو ہر وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنی ذات میں ایک انجمن سجائے رہتا ہے اس نے اپنے دوسرے ساتھی افضال بھٹی، جو پروفیشن کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں، کے ساتھ ملکر انتہائی اعلیٰ طاقتور حلقوں سے رابطہ کر کے اس کنونشن کے انعقاد کو ممکن بنانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی اور شنید ہے کہ اگلے چند روز میں اس کنوینشن کا انعقاد ہو گا۔ برطانیہ کی اس کاروباری شخصیت سید قمر رضا کا پاکستان میں ایک دھیلے کا کوئی لین دین یا کسی سے سیاسی قرابت داری نہیں۔ اس سے جب بھی بات ہو تو وہ کہتا ہے کہ برطانیہ میں ہماری آج بھی پہچان بطور پاکستانی ہے اور آج ہم برطانیہ میں جو کچھ ہیں وہ پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ یہ ہمارے اوپر پاکستان کا قرض ہے جسے ہمیں چکانا ہے۔ قارئین! یہ ہیں وہ جذبے جو آپکو دوسروں سے افضل بناتے ہیں۔
پاکستان کا قرض
Apr 09, 2025