ریکو ڈیک ہمیں مالا مال کر دے گا

Apr 09, 2025

سعد اختر

اس وقت پاکستان کے جو معروضی حالات ہیں، تقاضا کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئے- اگر ترقی و خوشحالی ہمیں درکار ہے، بیرونی قرضوں سے نجات ہمارا حاصل ہے تو ہمیں سرمایہ کاری کے تمام اہداف حاصل کرنا ہوں گے تاکہ خودکفیل ہو سکیں- آگے بڑھنے کا ہمارا سفر کسی تعطل کا شکار نہ ہو۔ عرصہ دراز سے ایک لفظ سنتے آئے ہیں ’’ریکوڈیک‘‘ یہ لفظ ہے کیا؟ اور معنوی اعتبار سے ا س کے معنی اور مفہوم کیا ہے؟ آئیے، جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔’’ریکوڈیک‘‘ ۔بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے- جو رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ضلع ہے- افغانستان اور ایران کی سرحدیں بھی اس کے قریب واقع ہیں- چاغی وہ مقام ہے جہاں پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور یوں پاکستان نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوا- چاغی طویل پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ایسا علاقہ ہے جہاں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں- یہ ذخائر حاصل ہو جائیں تو ہم دنیا میں ترقی کے نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں-
دنیا کی نظر یں ریکوڈیک کے اسی منصوبے پر ہیں- کئی ممالک کا تو’’انٹرسٹ‘‘ بہت بڑھ گیا ہے جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے- سعودیہ سے ہماری دوستی دہائیوں پرانی ہے- اچھی بات یہ ہے کہ ریکوڈیک  میں سعودی عرب نے 540 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے- سعودی سرمایہ کاری آنے سے صرف بلوچستان نہیں،پورے پاکستان کی معیشت میں استحکام اور بہتری آئے گی- لوگوں کے حالات بدلیں گے تو پاکستان بھی بدلتا ہوا محسوس ہو گا-
تانبا اور سونا دو ایسی دھاتیں ہیں جو دنیا بھر میں ویلیو ایبل (قیمتی ) ہیں- شکر کا مقام ہے کہ اللہ نے بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں کو ان ویلیو ایبل دھاتوں سے نوازا ہوا ہے- چاغی میں ان ذخائر کا شمار ہی نہیں- صرف چاغی کے یہ ذخائر بیچ دیں تو ناصرف آئی ایم ایف کا سارا قرضہ اتر سکتا ہے بلکہ پورا پاکستان مالا مال ہو سکتا ہے- ایک طرح سے ہمارا فیوچر ریکوڈیک سے جْڑا ہوا ہے- ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ریکوڈیک کتنا "ویلیو ایبل" ہے؟ریکوڈیک کان میں سونے کے ذخائر کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ کم و بیش 41.5 ملین اونس ہے- منصوبے کی ترقیاتی لاگت 9 بلین ڈالر بتائی گئی ہے جسکے پہلے مرحلے میں 4.5 بلین ڈالر درکار ہوں گے- اطلاعات یہ ہیں کہ 2028ء تک سونے اور تانبے کے ذخائر کی پیداوار شروع ہو جائے گی- جس کے تحت 2029ء تک دو لاکھ (200,000)ٹن تانبہ حاصل کیا جا سکے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں پیداوار کو دگنا کرنے کیلئے 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی- 
آنے والے 37 سالوں میں ریکوڈیک منصوبے سے قریباً 7.4 بلین ڈالر کا فری کیش فلو پیدا ہونے کی امید ہے-جس سے پاکستانی معیشت کو مستحکم ہونے میں مدد حاصل ہو گی- سعودی سرمایہ کاری سے بلوچستان پر درج ذیل ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
براہ راست یا بالواسطہ ہزاروں ملازمتوں کے مواقع ‘ سڑکوں کی تعمیر سے تجارتی رسائی میں اضافہ ‘منصوبے سے بلوچستان کو براہ راست جو مالی فائدہ حاصل ہو گا، اْسے ترقیاتی کاموں اور صوبے کی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکے گا‘مزید برآں قدرتی وسائل میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے ملکی سرمایہ کاری کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔اس منصوبے سے مقامی کمیونٹی کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔عالمی معدنیات کے شعبے میں بلوچستان کو ریکوڈیک منصوبے کی بدولت نمایاں مقام حاصل ہو گا- جس سے اس کی اسٹریٹجک اہمیت بڑھے گی‘بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ بلوچستان حکومت کا تعاون مضبوط تر ہو گا
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب بلوچستان میں آئل ریفائنری کیلئے بھی سرمایہ کاری کریگا- 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے سعودی حکومت بلوچستان میں ایک آئل ریفائنری قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے- یہ ریفائنری تین لاکھ (300,000) بیرل یومیہ خام تیل پروسیس کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی-
قبل ازیں یہ ریفائنری گوادر میں لگانے کی تجویز تھی لیکن اب حب (کراچی کے قریب) کے مقام پر اس کے قیام کو زیر غور لایا جا رہا ہے- اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کا درآمد شدہ ریفائنڈ پٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم ہو گا-سعودی عرب نے بلوچستان میں خطیر سرمایہ کاری کا جو عزم کر رکھا ہے اْس نے بھارت کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے- وہ منفی پروپیگنڈے پر اتر آیا ہے ، اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کیا جا سکے- بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کے لیے جھوٹے بیانیے پھیلائے جا رہے ہیں تاکہ بلوچستان پسماندہ اور غیر مستحکم رہے- 
بھارت یہ بے بنیاد دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ ریکوڈیک منصوبہ وسائل کا استحصال کرنے والا منصوبہ ہے جبکہ حقیقت میں ریکوڈیک منصوبہ سے بلوچستان کو 25 فی صد حصہ ملے گا- اور صوبہ براہ راست کئی مالی فوائد حاصل کرنے کا حق دار ہو گا- بھارت ماحولیاتی تبدیلی یا تباہی کے متعلق بھی غلط معلومات پھیلا رہا ہے تاکہ مقامی لوگ اس صنعتی ترقی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور علمِ بغاوت بلند کر دیں- بے امنی کو ہوا دینے کے لیے وہ ہر ممکن حربے استعمال کر رہا ہے- ریاست دشمن عناصر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی لابنگ کا استعمال کر کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ حقیقت میں ریکوڈیک منصوبے کو عدم استحکام سے جوڑنے کی کوششیں معیشت اور سیکورٹی کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے- ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ منفی پروپیگنڈے سے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکا جا سکے-
بھارت منفی پروپیگنڈے سے پاکستان کو معاشی اور سفارتی سطح پر تنہا کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے- اسی لیے بے اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے- ریکوڈیک منصوبے کو روکنا چونکہ بھارت کیمفاد میں ہے- اس لیے وہ دن رات انہی کوششوں میں لگا ہوا ہے- بلوچستان کو وہ غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے تاکہ بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آئے- وہ نہیں چاہتا پاکستان اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا سکے اور ترقی کی دوڑ میں آگے نہ نکل جائے- لیکن اب ہم نے مل کر بھارت اور ریاست دشمن تمام عناصر کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے- لہٰذا مضبوط ارادوں کے ساتھ ہمیں دشمن کے ناپاک اور مذموم ارادوں کو ناکام بنانا ہے- جس کے لیے ہمیں ہر حال میں اتحاد، اتحاد اور اتحاد کی ضرورت ہو گی- یونٹی کے تمام فریقوں اور ضابطوں کو ہمیں بروئے کار لانا ہو گا-

مزیدخبریں