ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں رکاوٹ کیا ہے ؟

Apr 09, 2025

ذوالفقار علی … صدائے علی

صدائے علی…ذوالفقار علی
 zulfiqar686@yahoo.com  

30 مارچ 2025   میں ایک قومی معاصر کے ادارتی صفحات پر مضمون بعنوان عافیہ سے غداری کیوں؟ نظر سے گزرا ،کالم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے لکھا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو دہائی سے امریکہ میں اسیر ہے ،موصوفہ پر امریکہ نے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ان الزامات میں ذرا بھی حقیقت نہیں ہے اگر تکنیکی اور مالی لحاظ سے پاکستان امریکہ کا محتاج ہے تو پاکستان بھی عسکری جغرافیائی لحاظ سے امریکہ کی ضرورت ہے اگر پاکستان امریکی فوجیوں پر حملوں اور اموات کی ذمہ دار شریف اللہ امریکہ کے حوالے کر سکتا ہے تو پاکستانی حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا باعزت حوالگی کا  مطالبہ کیوں نہیں کر سکتا اور پاکستانی حکام اور طاقتوروں نے شریف اللہ کی امریکی حوالگی کے وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیوں نہیں؟ کیا افغانستان میں امریکہ کی ذلت امیز شکست کے بعد جس میں پاکستانی خفیہ طاقتوں کا بڑا دخل تھا پاکستان کے مقتدرہ امریکہ سے کوئی بھی بڑا مطالبہ منوا سکتا اور ہے۔جنرل پرویز مشرف نے قوم کی بیٹی کو امریکہ کے حوالے کر کے قومی غیرت کا سودا کیا، پرویز مشرف کا معاملہ اب خدا کے سپرد ہ ہے حقیقت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی چابی اسلام اباد میں ہے آج بھی پاکستانی قیادت  اس کی باعزت رہائی کا مطالبہ کرے تو قوم کی یہ بیٹی چند دنوں میں رہا ہو سکتی ہے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ کی طویل قید کا اپنے وزارت خارجہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے موصوفہ کا یہ گلہ شکایت بجا ہے اسلام اباد اور  وزارت خارجہ قوم کی بیٹی کی رہائی کے لیے سنجیدہ نہیں، مضمون میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور جماعت اسلامی کی قیادت کے سیاسی اثر و رسوخ ان کی کوششوں قانون جنگ وہ کھیل کی خصوصی انتظام سے صرف نظر کیا گیا ہے عافیہ کی امریکہ میں قید تنہائی وزارت خارجہ ،سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کے منہ پر طماچہ  ہے۔عافیہ کی والدہ اپنی لاڈلی اور چھوٹی بیٹی کی طویل انتظار میں تڑپ تڑپ کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئی ایک بیٹی بیٹے یا پیارے کا دکھ صرف اس کے والدین خونی رشتہ دار بہتر سمجھتے ہیں عافیہ کی رہائی حکومت ریاستی اور آئینی فرض ہے یہ تمام حکمرانوں کے چہروں پر ایسا سیاہ داغ ہے کہ ہمیں 23 مارچ کو یوم آزادی  منانے پر شرم کرنی چاہیے جب تک اپنی قومی بہن بیٹی کے حرمت کے تقدس کو یقینی بنائے ڈاکٹر عافیہ کے مطابق ان کی بہن کو جیل میں انسانی حقوق اور طبی سہولتوں کی فراہمی روک دی گئی ہے یہ شاید موصوفہ کے ساتھ قران پاک کا وہ اعجاز ہے جس کے سہارے وہ زندہ ہیں۔ سابق سینٹر مشتاق احمد خان  اور جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی شخصیات کو عافیہ کے قید تنہائی جسمانی تشدد اذیت روکنے اور اسی قید سے چھڑانے کی قانونی سفارتی جنگ لڑنے کی جرات نہیں ہوئی ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق پاکستان پاکستانی وزارت خارجہ کی کارکردگی مضمون کے مطابق اگر ہماری بحث وزارت خارجہ کیا حال اپ سران اعلی افسران عافیہ کے امریکی وکیل لائیو سٹافورڈ اسمتھ (clive staford smith) کے قانونی موقف کی حمایت کریں تو اس کی بہن کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے اگر غیر مسلم امریکی وکیل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی پٹیشن  دائر کر سکتا ہے یا کرنے والا ہے تو ہمارے وہ وزارت خارجہ اپنی شہری کے لیے صرف ایک اخلاقی سیاسی اور تحریر کوششیں کیوں نہیں کرتا موصوفہ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور وزارت خارجہ امریکی وکیل سمیت کے قانون کی موقف کی حمایت اس لیے نہیں کرتا کیونکہ ہماری وزارت خارجہ کو عالمی دبا اور اپنی روایتی بے حسی سفارتی بزدلی کے خاطر سچ کہنا دیکھنا پسند نہیں پرائزن سے باعزت رہائی اور پاکیزہ باحیا قوم کے اس بیٹی بہن کی حمایت ہمارے قومی حکومتی اور اخلاقی فریضہ ہے پاکستانی نظام انصاف یعنی عدالتوں سے عوام سائلین عموما شاقی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے تاہم مایوسی گناہ ہیں کہ نفسا نفسی کے اس عالم میں بحث پاکستانی سماج اور عدلیہ میں ایسے جج حضرات ابھی زندہ ہے جو خزن وپاس  کے شکار مایوسوں کے لیے اب بھی امید کے روشن شمع لے کر پھر رہے ہیں ان میں  اسلام اباد ہائی کورٹ کے جج سردار اعجاز الحق خان بھی  ہیں جو ہمارے نظام انصاف میں عملی نمونہ ہیں عافیہ  کی بہن فوزیہ وزارت خارجہ کے برعکس اسلام اباد ہائی کورٹ کے ایماندار اور خدا ترس جج حجاز الحق خان کے کارکردگی اور قانونی معاونت تگ ودو،کو سراھتی ہے اگر وزارت خارجہ کشمیر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں بھائیو اور بہنوں پر خارجی استعمار اور یہودیوں اور ہندووں کی طرف سے لائے جانے والے ڈھائے جانے والے مظالم پر سفارتی صدائے احتجاج بلند کرتی ہے تو اپنی بیٹی بہن کے بے گناہ قید پراپنے سفارتی قوم ذمہ داریاں نبھانے  پورا کرنے سے کیوں کتراتی ہے بے شک عافیہ کی طویل قید تنہائی اور عصمت دری کی ناپاک جسارت ہماری قوم حکومت وقار اور غیر انسانی سلوک پر سیاح دھبہ ہے اگر ہمارے بے حس و حکمران وزارت خارجہ اور سب سے بڑھ کر اعلی عسکری حکام یا کمان، ٹرمپ یا جو بائڈن اور اعلی امریکی انتظامیہ کانگرس پر اپنا سفارتی دبا ڈالتے اور انہیں مجبور کرتے تو بائڈن قوم کی بیٹی کے رحم درخواست  رد نہ کرتے، ایک باحیا دختر مشرق بلا وجہ بے گناہ بغیر کسی ٹھوس جرم جو آج تک ثابت نہیں ہو سکا اتنے جسمانی ذہنی کرب اور صدمے سے گزر رہی ہے صدیقی خاندان اعلی تعلیم یافتہ جدید علوم کا حامل خاندان جو پاکستان میں سماج اور معاشرت کے سر کا تاج اور فخر ہے اپنی ہی ریاست کے ایماں پر اغیار کے ہاتھوں اور غموں کو اذیت کے زبانی برداشت کر رہی ہے۔ ایک پاکیزہ حافظ قرآن پیشہ وارانہ اور قوم کی فخر اور پاکیزہ خاتون نے اپنے ہی حکومتوں کے مزموم شرمناک بے حسی کی وجہ سے بے گناہ ظلم جبر اذیتوں کا شکار ہے ایک بہن کو ناحق گھائل کیا جا رہا ہے۔حکمرانوں کی جانب سے بہن کے رہائی میں رکاوٹ ہے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو پریشان اور بہن کی رہائی کے مطالبہ سے ایسے دستبردار ہونے کے لیے کھڑے کی جاتی ہے اور اسی کی پرکشش ملک کو خصوصا برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور برطانیہ اپنی خصوصی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اسی سیاسی پناہ اور تحفظ بھی دے گا تاہم برطانیہ میں یا کسی بھی پرکشش یورپی ملک میں سیاسی پناہ سے گریز اور اپنے دیس میں قیام کو ترجیح دینا ایک صنف نازک کی طرف سے یقینا حب الوطنی کی اور جرات کے بڑی علامت اور قدم ہے عافیہ صدیقی کا ناجائز غیر قانون قید پوری قوم اور خصوصا حکمرانوں کے بدترین بے ہمتی ہے اس لیے بحیثیت پاکستانی اور مسلمان اپنے مظلوم بہن کے باعزت رہائی صنف حرمت حرمت تقدس کے لیے اخلاقی قانونی جنگ لڑنا اور دنیا بھر میں صدائے احتجاج ہمارا مذہبی قوم اخلاقی فریضہ ہے قران عظیم الشان بھی مصیبت میں پھنسے مسلمان بہن بھائیوں کے خلاف قانونی حمایت مدد اور زندان سے اخراج میں تعاون کا درس دیتا ہے برطانیہ امریکہ میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے برطانیہ میں سیاسی پناہ اور انسانی حقوق کے پاسداری جھوٹ، پروپیگنڈا اور صرف ڈھنڈورہ ہے یا کسی بھی خارجی شہری کو اپنے ملک میں شازو نادر درپیش انتہائی ناخوشگوار حالات ماحول اور عدم تحفظ کی صورت میں صرف تین چار پناہ کے متلاشیوں کو قانونی جسمانی تحفظ دیا جاتا ہے اوروہ بھی اگر کسی انتہائی خوش نصیبوں کو ملتا ہے اس سے برطانیہ اپنا  مکروہ چہرہ چھپاتا ہے جو جھوٹ ہے تاہم موصوفہ اور ان کے اسیر بہن کے غیر ملکی شہریت سے انکار ہو الوطنی اور قابل تعریف ہے.

مزیدخبریں