ڈاکٹر طاہر بھلر
جانا تھا ہم سے دور ، ٹھکانے بنا لئے ۔ اتنی دور کہ ان قبرستان کی خاموشی سے جہاں انہیں لحد میں سترہ مارچ دو ہزار چوبیس کو لحد میں اتارا گیا۔ رحلت سے چند لمحے پہلے وہ بالکل ہشاش بشاش اور پر اعتماد گفتگو کر رہے تھے کہ آ نًا فاناً باتیں کرتے ہوے اچانک خاموش ہو گئے اور راقم ابھی رات کو آکر اپنی کرسی پر تمام دن کی تھکا دینے والی مصروفیت سے فارغ ہو کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرے بڑے بیٹے نے یہ خون چکاںخبر سنائی کہ وہ شخص جس سے ہمارے گھر ، خاندان میں میں پچاس سال سے زیادہ روشنی تھی اور خاندانی اکٹھ کا تصور بدرجہ اتم موجود تھا ، وہ جو میرا بڑا بھائی ہونے کے ساتھ میرے علاوہ لاکھوں طالبعلموں کا مینٹار ، بھی تھا ، کیئیوں کے چولے اس کے دم قدم سے جلتے تھے۔ جن کے شاگرووں میں اکرم چوہان ، نوید انور نوید اور ہزاروں ڈاکڑزر اور اور آج بڑی کرسی پر براجمان ان کے شاگرد ہیں۔ جبکہ ان کا اپنا بیٹا واحد پاکستانی ڈاکڑز میں سے ایک ہے ہے جس نے کیمبرج یو کے سے پچھلے دو سو سال سے پہلے پاکستانی ڈاکڑز ہونے کا ،، ہنٹیرین ایوارڈ،، حاصل کر کے پاکستان کا نام تمام بشمول سی این این دنیا کے میڈیا چینلز پر گونجھا۔کچھ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ، کچھ ذہن ماوف سا ہے کہ اس بڑی شخصیت پر کیا لکھوں۔ وہ بذات خود ایک استاد ، ایک شاعر ، ایک مصنف ، ایک مذہبی سکالراور اسلانی کتابوں کے مصنف ، پائے کے مقرر، اور تاریخ کے پیشے سے وابستہ ہونے کے نا طے تاریخ دان تھے اور گوجرانوالا کے لئے ان کی خدمات کسی تعارف کی مختاج نہ تھیں۔بے شک بڑی مشکل سے ایسی با کر دار افراد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اسی سال سے دو ماہ کم عمر میںچالیس سال تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور اے ڈی ماڈل سکول ، اسلامیہ کالج ، گوجرانوالا ایم اے او کالج لاہور میں اس شعبے سے وابستہ رہے۔ان کے عوامی فلاحی منصوبوں میں ایک سکول ان کے والد،، میاں دین محمد ،،کے نام سے عالم چوک اور مذہبی مدرسہ،، دارشفاہ ،،کے نام سے قائم اب بھی چل رہا ہے جو کہ بغیر کسی قسم کی فیس کے غریبوں کی لئے حدمات انجام دے رہا ہے میں بھی وہاں فری ڈسپنسری میں لوگوں اور مزدزر طبقہ کو چیک کرتا ہوں۔ ان کی روحانی دنیا میں ایک کامل صوفی کے تمام حفظو مراتب اور روابط وہ اکثر دنیا سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ وہ ایک شفیق ، ہمدرد انہائی ملنسار انسان ہی نہ تھے بلکہ دوسروں لوگوں کے مسائل حل کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتے تھے ۔اکثر خوابوں اور آنے والے واقعات یا جب کبھی مجھ جیسے دنیا دار کو کوئی مشکل ہوتی تو وہ خود رابطہ کر کے رہنمائی فرماتے۔بقول غالب ،
جاتے ہوے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ، ان کے بارے میں یہ کہنا قطعی ضروری سمجھتا ہو ں
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دئے ڈھونڈھا تھا آسمان نے جنھیں خاک چھان کے۔
ان کی انسان دوستی ، حبالوطنی ، دھرتی سے عقیدت نے ان کو پاکستان سے جدا نہیں ہونے دیا جبکہ ان کے بیٹے جو کیمبرج میں ہنٹیرین ایوارٹ جیت کر پنیسلن کے موجد ایلیگزنڈرفلیمنگ جیسے موجدوں میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں جب چاہتے ان کو،، یو کے،، میں رہائش کروا سکتے لیکن اس مرد قلندر نے کبھی بھی پاکستانیت پر سمجھوتا نہیں کیا اور ہر کو شش کی اس ملک کے پسماندو ، غریب ، نادار طلبا ، افراد کو کسی نہ کسی طرح چاہے ان کی شادیوں کا اہتمام کر کے چاہے ان کو روزگار کی فراہمی کر کے اینے ہم وطنوں کو سہولت اور مدد کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔
وہ آخر دم تک اپنے خاندان سمیت اپنے ہر ملنے والے کا خیال رکھتے شائد یہی وجہ ہے کہ کہ ان کو جانے والے ہر شخص سوگوار ہے اور اس ،،فادرلی فگر،، کی کمی اس کا احساس دلاتے رہیں گے کہ آج ایک ایسا شخص ان سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا ہے جنوں نے صرف اپنے بل پر نہ صرف پانچ ایم اے پاس کئے تھے بلکہ اتنے ایمان دار انسان اور آفیسر آج کل عنقا ہیں۔اسی لئے یہ کہنا بجاہے کہ مر گیے وہ تو زمانے نے بہت یاد کیا۔علم وروحانیت کے اس چھپے بے کراں سمندر ، انسانیت کے اس مجسم کو آج خراج تحسین نہ کہناعین فرض اور قرض ہے۔ اس فانی دنیا جہاں ہر ذی روح کافناہونا امر ربی ہے لیکن اس نابغہ روزگار جیسی شخصیت کی ہستی کو دماغ کی لوح سے کھرچ کر نکالنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا اگر ناممنات میں سے نہیں ۔ خدا ان کو ہر کروٹ سکون پنچائے اور ان کی آئندہ منزلوں کو ان کے لئے آسان فرمائے۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت راہ۔
آہ میرے بڑے بھائی پروفیسر عثمان خالد ہمیں چھوڑ گئے
Apr 09, 2024