مادر ملتؒ کی جانثار… قمر جہاں بیگم

آج نویں برسی ہے
تحریک پاکستان میں بے شمار خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کیا ،اُن کی جدوجہد تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔اس وقت علیحدہ وطن کی آرزو برصغیر میں بسنے والے ہر مسلمان کے دل میں موجزن تھی جن میں بچے ، بوڑھے اور جوان حتیٰ کہ خواتین اور بچیاں بھی اس جدوجہد میں پیش پیش رہیں ،انہی میں سے ایک نام میری والدہ محترمہ قمر جہاں بیگم کا بھی ہے جوتحریک پاکستان کی اس جدوجہد میں میری نانی جان کے ساتھ ساتھ رہیں ۔تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اُن کی آنکھوں کے سامنے گھومتے رہتے اور وہ کم عمری میںاپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے واقعات کو یاد کرتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہو جاتیں۔میری والدہ محترمہ کا تعلق دہلی کے ایک بہت ہی رئیس اور متمول خاندان سے تھا ۔ تحریک پاکستان کے وقت انکی عمر اگرچہ زیادہ نہ تھی لیکن وہ اپنے محلے کے بچوں اور اپنی ہم جولیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے حق میں نعرے لگاتیں ،اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ جلوسوں میں شریک رہتیں ۔چونکہ وہ ایک صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے آپ شہزادیوں کی طرح زندگی بسر کررہیں تھیں ،اُس دور میں جبکہ مسلم گھرانوں کے پاس زیادہ آسائشیں نہ ہوتی تھیں انکو دنیا کی ہر نعمت میسرتھی ،بڑا بنگلہ ،موٹر کار سمیت کوئی سہولت ایسی نہ تھی جو حاصل نہ ہو۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے پیارے وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آ گئیں اور راولپنڈی میںبھابھڑا بازار کی ایک تنگ و تاریک گلی میںواقع ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگیں۔تحریک پاکستان میں خواتین کی سیاسی جدوجہد نے ان کی زندگی پرگہرے نقوش چھوڑے ،جس کی بناء پر فیلڈ مارشل ایوب خان دور میں ہونے والے بنیادی جمہوریت (BD)کے نظام کے تحت انہوں نے راولپنڈی شہر سے لیڈی ممبر کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا ۔ انتخابی نشان ’’جہاز‘‘ تھا ۔ اس نشست پر محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی مسلم لیگ کی طرف سے مکمل حمایت حاصل تھی۔انکو راولپنڈی شہر کی پہلی خاتون بی ڈی ممبر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔1966ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی انتخابی مہم بھرپور انداز سے چلائی ،اس جدوجہد میں آ پ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن میں نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان جیسے زیرک سیاستدان سے واسطہ پڑا جن کی دہشت اور جاہ و جلال سے بڑے بڑے سیاستدان خوف کھاتے تھے ،مگر ان کے پایہ ء استقلال میں ذرا لرزش نہ آئی ۔اس وقت ان کی جرا ت ، ثابت قدمی اور خلوص کا اعتراف خود محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی کیا کرتی تھیں ۔ 1968ء میں جب فیلڈ مارشل کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں بھی وہ معروف لیگی رہنماء محمود احمد منٹو کی اہلیہ سمیت دیگر خواتین کے شانہ بشانہ شریک رہیں ۔ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی وہ بیگم محمود احمد منٹو کے ساتھ ساتھ رہیں ۔تحریک نظام مصطفیٰ ؐ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔
ان کی ملک کے نامور سیاستدانوں محترمہ فاطمہ جناح، ؒ سردار شوکت حیات خان ، ممتاز محمد خان دولتانہ ،غلام حیدر وائیں ،خان عبدالقیوم خان ،یوسف خٹک ،احمد سعید کرمانی ، صاحبزادی محمود بیگم ، چوہدری ظہور الہیٰ ، محمود احمد منٹو اور ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں اور انکو اُن سے سیاست کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا ۔مسلم لیگی خواتین قائدین سنیٹر بیگم نجمہ حمید ، ایم این اے بیگم طاہرہ اورنگ زیب کوبھی ان کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا ۔وہ ایک ملنسار، ہمدرد اور خدا ترس طبیعت کی مالک خاتون تھیں ،دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی زندگی کو وقف رکھا ۔راولپنڈی شہر میں اپنا وسیع حلقہ ء اثر تھا ،خواتین اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے مشاورت اور رہنمائی کو ترجیح دیتیں ۔ درس و تدریس کا بہت شوق رہا ۔نونہالوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیتیں ،یہی وجہ ہے کہ محدود وسائل کے ساتھ انہوںنے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ، شفقت اور لگن کی بدولت ان کے صاحبزادگان اس وقت اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اپنی والدہ کی جلائی ہوئی خدمت عامہ کی شمع کو فروزاں کئے ہوئے ہیں ۔انکو مطالعے کا بھی بے حد شوق تھا ،منٹو سے بابو قدسیہ تک سبھی کو پڑھا ۔ وہ تعلیم کو انقلاب کا ذریعہ قرار دیتیں ۔ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے تو اُس کے بندوں کو خوش رکھو ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو غم زدہ نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔دامے ، درمے ، سخنے ضرورت مندوں کی مدد اُن کی زندگی کا مشن رہا ۔ہمیشہ رزق حلال کی تلقین کی ،اپنے بچوں کی پرورش بھی رزق حلال سے کی ، انہیں اچھی تعلیم دی اور اچھا انسان بنانے کی سعی کی ،جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ۔یہی وجہ ہے آج ان کی فیملی میں 13ڈاکٹر،2انجینئر،2وکیل اور 2اساتذہ کرام شامل ہیں۔انہوں نے فروغ تعلیم کیلئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں ،کئی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مستحق طلبہ و طالبات کی حصول علم کیلئے مکمل معاونت کا فریضہ بھی ادا کیا ۔سینکڑوں بچوں اور بچیوںکو خود پڑھایا اور اچھی تعلیم دلانے میں بھی مدد کی ۔ان کے شاگرد پاکستان بھر میں اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں خدمات سرنجام دے رہے ہیں ۔وہ انجمن بہبود ِخواتین کی صدر بھی رہیں ، ساری زندگی خواتین حقوق کی جنگ لڑی ،ہمیشہ مظلوم و بے سہارا لوگوں کی مدد کی ، سماجی و فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہیں ۔غریب و یتیم بچیوں کی شادی بھی کروائی ، ضرورت مند خواتین کو سلائی مشینیں ، راشن اور عید و تہواروں پر کپڑے بھی مہیا ء کئے ۔ پاکستان گرین ٹاسک فورس کی شجرکاری مہم میں ہر سال برابر حصّہ لیتی رہیںشہر میں بے شمار جگہوں پر اپنے ہاتھ سے پودے لگائے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں،وہ تنظیم کے دیگر فلاحی کاموں میں بھی معاونت کرتی رہیں۔ میرے والد بزرگوار نثار احمد نثار کا شمار تحریک پاکستان کے بے لوث اورمخلص کارکنا ن اور معروف
سیاستدانوں میں ہوتا ہے اُن کی تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے لئے خدمات تاریخ کا حصّہ ہیں ۔وہ راولپنڈی شہر کی ایک مشہور کاروبار ی شخصیت ، دانشور اور ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نگار ہیں۔مجھے خود بھی فخر ہے کہ میں تحریک پاکستان کے ایک ایسے کارکن کا بیٹا ہوں کہ جس نے قیام پاکستان میں اپنا حصہ ڈالا اس کے ساتھ ساتھ میرے لئے یہ بھی اعزاز ہے کہ میں والدہ محترمہ قمر جہاں بیگم جیسی عظیم ماں کا بیٹا ہوں کہ جس نے مشکل حالات میں ہماری پرورش کی اور ہمیں تعلیم کی دولت سے بہرہ مند کر کے اس قابل بنایا کہ میں طویل عرصے سے شعبہ ء صحت سے وابستہ ہوں اور شبانہ روز دکھی انسانیت کی خدمت کا مشن آگے بڑھا رہا ہوں ۔ انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے مجھے ’’پنجاب کے عبدالستار ایدھی‘‘ کا خطاب بھی دیا جا چکا ہے ۔ حکومت پاکستان کی طرف سے مجھے میری اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ’’صدارتی تمغہ ء حسن کارکردگی ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے ، یہ تمغہ مجھے یوم پاکستان کی تقریب میں اس وقت کے صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے دست مبارک سے عطا کیا ،اس کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے بھی مجھے ’’میڈل آف میرٹ‘‘ دیا جا چکا ہے ۔ان کے چھوٹے صاحبزادے یعنی میرے بھائی سہیل ناصر راولپنڈی کی عدلیہ میں بحیثیت جج خدمات سرانجام دے رہے ہیںجن کے انصاف کے حوالے سے فیصلے خود بولتے ہیں ،وہ انصاف کے ایوانوں میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ تیسرے صاحبزادے زبیر ناصر کا شماربھی راولپنڈی اسلام آباد کی معتبر شخصیات میں ہوتا ہے،خدمت عامہ کے حوالے سے ان کا اپنا ایک حلقہ اثر ہے ۔ ہماری فیملی کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم نے اپنی والدہ کی تربیت و رہنمائی میں شہر میں اپنا آپ منوایا ہے، شہر کے مقتدر حلقے ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ماں جی کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً 9برس بیت گئے ہیں لیکن انکی کی یادیں اور خدمات آج بھی لوگوں کے دلوں میں انکو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں ۔اللہ غریق رحمت فرمائے آمین۔ آخر میں مرحوم شوکت مہدی کا ایک یاد گار شعر اوراجازت
پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے
ماں نے کیا ہوا ہے سپرد خدا مجھے