تعمیراتی صنعت میں تیزی کی توقعات

کسی بھی ملک کی ترقی میں تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کا شعبہ اہم کردار ادا کر تا ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں عروج پانے والا یہ شعبہ موجودہ دور میں ٹیکسوں کی بھرمار سے عضو معطل ہو کر رہ گیا تھا۔ چند روز پہلے وزیراعظم عمران خان کے ان دونوں شعبوںکے لئے نئی مراعات کے اعلان کے بعد یہ امید ہو گئی ہے کہ یہ دونوں شعبے ایک بار پھر سے متحرک ہو سکیں گے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ کوئی دو ماہ پہلے رئیل اسٹیٹ کے بزنس پر ہوشربا ٹیکسوں کے نفاذ کے بارے میں اپنے کالم میں حکومت سے ٹیکسوں کی شرع کو کم کرنے کی اپیل کی تھی۔حکومت کی تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے آمدن کے ذرائع کے بارے میں باز پرس نہ کرنے کی سہولت ایک خوش کن فیصلہ ہے پہلے پراپرٹی کی خریدوفروخت پر فائلر کی حیثیت سے ایک فیصد اور نان فائلر کی صورت میں دو فیصد گین ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا لیکن نئے اعلان میں اس ٹیکس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی شعبے پر ودہولڈنگ ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا ہے اس سے قبل موجودہ حکومت نے بیرون ملک سے رقوم بھیجنے والوں پر لگائے جانے والے ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کر دیا تھا تاکہ اوورسیز پاکستانی زیادہ سے زیادہ رقوم بھیج سکیں۔اگرچہ حکومت نے تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسوں کے خاتمے کا اعلان تو تاخیر سے ہی کیا ہے لیکن دیر آید درست آید کے مصدق ملکی ترقی میں اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔نئے پاکستان ہاوسنگ اسکیم میں بھی جو لوگ سرمایہ کاری کریں گے انہیں حکومت نے نوے فیصد ٹیکس ربییٹ دینے کی نوید دی ہے نئے اعلانات میں پراپرٹی کی خرید و فروخت پر اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو بھی چھ فیصد سے کم کرکے دو فیصد کر دیا گیا ہے جس کے بعد رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں خاصی تیزی آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔حکومت کی طرف سے تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کے بزنس پر ٹیکسوں کی شرح بڑھانے سے ان دونوں کاروبار کی رفتار میں بہت زیادہ کمی آگئی تھی جس سے اس کاروبار سے وابستہ لاکھوں افراد بھی بے روزگار ہو گئے تھے۔اگرچہ حکومت نے تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں کو مراعات دینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن ابھی رئیل اسٹیٹ سے منسلک لوگوں کے چند ایک مسائل کا حل ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ شہبار دور میں پنجاب میں بڑے بڑے شہروں میں پراپرٹی کی خریدو فروخت پر ڈی سی ریٹ کا اطلاق نے بھی رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو خاصا متاثر کیا ہے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ لوگوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ پنجاب میں شہبار شر یف نے رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والوں پر پروفیشنل ٹیکس بھی لگا رکھا ہے حالانکہ ڈاکٹرز اور وکلاء پر یہی ٹیکس صرف چند ہزار روپے ہے لہذا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاروبار ہو یا نہ ہو انہیں تو دس ہزار پروفیشنل ٹیکس بہر صورت ادا کرنا پڑ رہا ہے لہذا موجودہ حکومت کو رئیل اسٹیٹ پر پروفیشنل ٹیکس کی شرع پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔حکومت نے ایک ایسے وقت میں رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبوں کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے جب ملک کرونا وائرس جیسی مہک وبا ء کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے لیکن اب تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں سے وابستہ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں اور اس سلسلے میں اپنے اپنے علاقوں میں رہنے والے مستحق افراد کی ہر طرح سے مد د کریں ۔اس موقع پر سیاسی اور مذہبی حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کے ساتھ اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر مستحق لوگوں کی امداد کے لئے اگے بڑھیں جیسا کہ جماعت اسلامی کے لوگ اپنے اپنے حلقوں میں بے روزگار اور مستحق لوگوں میں بلا امتیاز راشن تقسیم کر رہے ہیں اسی طرح دیگر جماعتوں کو بھی جماعت اسلامی کی تقلید کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ ہمیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما ماسوائے سیاسی بیان بازی اور حکومت پر تنقید کرنے کے سوا کوئی عملی کام نہیں کر رہے ہیں لہذا ہماری ان سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر لوگوں کی مدد کو یقینی بنائیں یہی اصل میں سیاست اور عوام کی خدمت ہے ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف بڑی کارروائی کرکے ایک مثال قائم کی ہے اس سلسلے میں انہوں نے بعض وزراء سے وزارتیں بھی واپس لے لی ہیں جس اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے۔اس سلسلے میں ذمہ دار لوگوں کے خلاف مزید کارروائی کرنے کے لئے بھی ایف آئی اے کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ کے لئے حکومت کی طرف سے نئے اقدامات کے بعد امید ہے کہ ملک میں رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کا رکا ہوا پہیہ ایک مرتبہ پھر سے متحرک ہو جائے گا جس کے بعد ملک میں بے روزگار طبقے کو نئے نئے روزگار بھی مل سکیں گے اور ہمارا ملک ان دونوں شعبوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔اب ان دونوں شعبوں کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کاروبار سے حکومت کو ٹیکسوں کی ادائیگی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے۔کیونکہ کوئی بھی ملک محاصل کی وصولی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ہے جس ملک کے عوام حکومت کو ٹیکسوں کو باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں وہی ملک ترقی کر سکتے ہیں۔ ہم حکومت سے یہ بھی کہیں گے کہ وہ ٹیکس چوروں کے خلاف بھی اپنی کارروائی جاری رکھیں۔ اگرحکومت ٹیکس کی وصولیوں میں کامیاب ہو گئی تو انشااللہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکے گا۔