افغان حکومت اور طالبان مذاکرات تعطل کا شکار

افغان طالبان نے افغانستان کی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹ کیا ہے کہ ان کی ٹیم بے نتیجہ مذاکرات میں شریک نہیں ہو گی جو فریقین کے درمیان آج ہونے تھے۔
امریکہ میں کرونا وائرس سے تباہی مچی ہوئی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا مکمل طور پر فوکس کرونا وائرس سے نجات پر ہے۔ کل تک امریکہ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے انخلاء تھا جس کے لئے طالبان کے ساتھ اعصاب شکن مذاکرات ہوئے۔ ان میں امن دشمنوں کی طرف سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی گئیں مگر امریکہ اور طالبان کی سنجیدگی کے باعث مذاکرات نشیب و فراز کی کیفیت سے گزر کر بالآخر کامیاب ہوئے اور امن معاہدہ طے پا گیا ۔ مذاکرات کی مخالفت افغان انتظامیہ کی طرف سے اپنے اقتدار کو لاحق خدشات اور بھارت کے ایما پر کی گئی ۔ مذاکرات کے بعد بھارت اور افغان انتظامیہ اپنے اپنے مفادات پر منڈلاتے خطرات کو دیکھ کر امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ افغان حکومت نے پہلے تو طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ کی طرف سے سخت وعید پر افغان حکومت نے خاموشی اختیار کر لی مگر پھر سے اس کی بدنیتی سامنے آ گئی۔ افغان حکومت امن معاہدے کے مطابق اب بھی طالبان قیدیوں کی رہائی میں رخنے ڈال رہی ہے جس کے باعث طالبان نے گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کا بائیکاٹ کردیا۔ اس پر امریکہ کو تشویش ہونی چاہئے۔ افغان حکومت کے ایسے رویے سے انخلا میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کے اثرات ٹرمپ کی پارٹی کے نکتہ نظر سے امریکی صدارتی انتخابات پر بھی منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کا تو فوکس کرونا پر ہے مگر افغان امن معاہدے پر بھی اسے مکمل عملدرآمد کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ دوسری صورت میں افغان سرزمین پر آگ برستی اور خون بہتا رہے گا۔