زرہ بکتر پہنے سراج الحق کرونا کیخلاف مورچے میں

آواز جانی پہچانی تھی مگر شکل نہیں پہچانی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ میری کمزور بصارت تو نہیں ہوسکتی تھی ۔ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والی شبیہہ کسی خلائی مخلوق کی طرح لگ رہی تھی۔خلائی مخلوق اوراسپیس شپ پر کئی فلمیں بن چکی ہیں ۔امریکی سنٹر ناسا سے چاند اور مریخ وغیرہ کے سفر پر جو خلا باز روانہ ہوتے ہیں، ان کا لباس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور تو اور ہمارے ہسپتالوں کے آپریشن ٹھیئیٹرز میں بھی اسی طرح کے گائونز اور ماسک پہنے سرجن دیکھے جا سکتے ہیں، ایک زمانے میں جب لشکر آمنے سامنے لڑتے تھے تو دونوں طرف کی افواج سر سے پائوں تک فولادی لباس میں ملبوس ہوتی تھیں۔ زیادہ دور کیوں جائیں ہمارے بچپن میں مائیں بہنیں کابلی برقع پہنتی تھیں تو ایسی ہی دکھائی دیتی تھیں۔
ملک میں جماعت اسلامی کے امیر واحد سیاست دان ہیں جنہوںنے ایک تو اپنے کارکنوں اور مجموعی طور پر ملکی عوام سے ناطہ نہیں توڑااور اس میل ملاپ کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے آپ کو حفاظتی لباس میں ملبوس رکھیں باقی سیاست دان تو وڈیو لنک کے پردے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے۔ ان کے برعکس جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے جو محلے کی سطح تک منظم ہے اور قیام پاکستان سے پہلے سے اس کا یہ نظام چلا آرہا ہے۔جماعت کے کارکن تھوڑی تعداد میں ہیں مگر وہ مکمل سرگرم عمل ہیں۔ کرونا نے دیہاڑی دار طبقے میں بھوک پھیلائی تو جماعت اسلامی میدان میں اتری،قدرتی آفات کے لئے جماعت کی ذیلی تنظیم الخدمت ہمہ وقت مصروف عمل رہی ہے مگر کرونا نے پوری جماعت اسلامی کو متحرک اورسرگرم ہونے پر مجبور کر دیا۔ گلی گلی محلے محلے سے حاجت مندوں کی فہرستیں تیار کی گئیں اور ان کے لئے مناسب راشن کے تھیلے بانٹنے کا عمل شروع ہوا۔ آپ یقین نہیںکریں گے کہ جو کام حکومت شروع تک نہیں کر سکی، وہ جماعت نے کر دکھایا۔ ا سکے جو کارکن گلی محلوں میں راشن کے تھیلے بانٹنے جاتے ہیں وہ بھی مکمل حفاظتی لبا س پہنے ہوتے ہیں ،وہی لباس جو جماعت کے امیر نے پہن رکھا ہے۔ جماعت کے کارکن رات کے اندھیرے میں کسی دروازے پر دستک دیتے ہیں اور راشن کا تھیلا دہلیز پر رکھ کر خلائی مخلوق کی طرح غائب ہو جاتے ہیں ۔نہ ستائش کی تمنانہ صلے کی پروا۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ جماعت کے وسائل محدود ہیں ۔ اس کا دکھ لازمی طور پر مولانا سراج الحق کو بھی ہو گا اور قیم جماعت کے طور پر جناب امیر العظیم بھی اس تشویش میں مبتلا ہوں گے کہ وہ ہرشخص کی ضرورت کیسے پوری کریں۔
اس کے لئے انہیں مخیر طبقے کا تعاون چاہئے اور میں جماعت کے محدود وسائل کی ایک تصویر پیش کرتا ہوں۔ رائے ونڈ لاہور ہی کا ایک نواحی قصبہ ہے۔ وہاں جماعت کی ناظمہ ڈاکٹر نذیر شہید کی عزیزہ ہیں۔ رائے ونڈ سے مجھے کوئی دو درجن حاجت مندوں کی لسٹ ملی جو دیہاڑی نہ ملنے کی وجہ سے خالی ہاتھ ہیں اور مخیر طبقے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
کسی طرح میں نے یہ لسٹ رائے ونڈ کی ناظمہ تک ارسال کی جواب ملا کہ دو تین ہزار راشن کے تھیلے ملے تھے ۔ سب تقسیم ہو گئے اور اسی فی صد ضرورت مند باقی ہیں۔ یہ لوگ مختلف فیکٹریوں میں کام کاج کرتے ہیں۔ یا تبلیغی جماعت والوں کے لئے دستانے، موزے اور مچھر دانیاں بناتے ہیں۔ یہ سارا کام گھروں میں انجام دیا جاتا ہے۔۔ کرونا نے چھوٹی بڑی فیکٹریاںبند کروادیں اور گھروں میں محنت مزدوری کرنے والی بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین بے کار ہو گئی ہیں۔
میں داد دیتا ہوں جماعت کے مرکزی نظم کی کہ دو دن کے اندر ان گھروں میں دو دو ہزار روپے نقد ارسال کر دیئے گئے ۔ کچھ لوگ امداد سے محروم ہیں ۔اگر مخیر اصحاب اور ادارے میری یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو وہ جماعت کو وسائل فراہم کریں اور اللہ سے اجر پائیں۔ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر، خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر۔ خدا کہتا ہے مجھے قرض حسنہ دو، میں قیامت کے روزبڑھا چڑھا کر واپس کروں گا۔
جماعت اسلامی ایک حوصلہ مند ادارے کی حیثیت رکھتی ہے،جماعت کا ادارہ الخدمت تو زلزلے اور سیلاب میں شاندار کارکردگی دکھا چکا ہے۔بھٹو کے دور میں بیشام اور پتن زلزلے سے ڈھیر ہو گئے ۔ میں ایک نوجوان اور مہم جو فیچر نگار کے طور پر پتن پہنچا تو وہاں جماعت اسلامی کا واحدامدادی کیمپ کام کررہا تھا۔ بھٹو دور ہی میں طوفان نوح نے پورے ملک کو برباد کیا تو جماعت نے چناب اور جہلم کے سیلاب کی زد میں آنے والوں کی دست گیری کی۔ مشرف دور کے زلزلے میں جماعت نے خدمت خلق کی لا زوال مثالیں قائم کیں۔
آج جماعت کو کسی ٹائیگرفورس کی بھرتی کی ضرورت نہیں۔ یہ کارکنوں کے ایک لشکر سے لیس ہے۔ آپ اسے وسائل مہیا کریں۔ یہ راشن کے تھیلے رات کی تاریکی میں حاجت مندوں کی دہلیز تک پہنچا دیں گے ۔جماعت کاسپاہ سالار زرہ بکتر سے لیس ہے ، اس کے حوصلے جواں ہیں۔ وہ خود بھی جوانوں سے بڑھ کر چست و چالاک ہیں۔ اور رہے امیر العظیم ،تو وہ مرد بحران ہیں۔ بحران نہ ہو تو پیدا کر لیتے ہیں اور پھر اس سے لڑتے ہیں اوراسے چت کر دیتے ہیں۔ ان پر بھروسہ کیجئے ۔ یہ بے نظیر فنڈ کھانے والے مجنوں نہیں ہیں۔ آپ کے، سب کے، قوم کے ہمہ وقت خدمت گزار ہیں۔