جمعرات ‘ 15 ؍ شعبان 1441ھ‘ 9 ؍ اپریل 2020ء

پاکستان سمیت کئی ممالک میں سُپرمون کا دلکش نظارہ
زندگی کی موت کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے ابد تک جاری و ساری رہے گا۔ کہتے ہیں موت فاتح ہے زندگی کا سلسلہ منقطع کر دیتی ہے۔ زندگی کا چراغ بجھا دیتی ہے۔ مگر غور سے دیکھیں تو زندگی بھی تو فاتح نظر آتی ہے جو موت کا ہر وار سہہ کر ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہے۔ موت مارتے مارتے نہیں تھکتی تو زندگی بھی جنم لیتے لیتے نہیں تھکتی۔ ایک مرتا ہے تو دوسرا پیدا ہوتا ہے۔ موت کے خوف کے باوجود زندگی ہر قدم ہر ہنستی مسکراتی حوصلے بڑھاتی نظر آتی ہے۔ قدرت بھی حیات کی اس معصوم مسکراہٹ کیلئے اپنے بے شمار مناظر کو عیاں کرتی ہے۔ کہیں پھول ، کہیں ستارے ، کہیں آبشاریں ، کہیں سمندر ، کہیں جنگل ، کہیں صحرا بے شمار مناظر قدرت قدم قدم پر زندگی کو خوش آمدید کہتے ہیں اسے موت کے خوف سے نجات دلاتے ہیں۔ گزشتہ شب کا چودھویں کا چاند بھی ایسا ہی ایک نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اس خوبصورت نظارے کو سُپرمون بھی کہتے ہیں جسے دیکھ کر بے شمار لوگ بے اختیار…؎
تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
پکار اٹھے۔ جب چاند زمین کے بہت قریب ہو تو اس کے رخ روشن کو بلیو مون یا پنک مون کہتے ہیں۔ یہ چاند کا شاندار دلکش نظارہ ہوتا ہے۔ زمین کی قربت سے چاند کا حسین اور خوبصورت چہرہ بلیو یا گلابی رنگ میں رنگا لاکھوں نہیں کروڑوں دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے۔ گزشتہ روز بھی یہی کچھ کروڑوں لوگوں نے دیکھا اور عارضی طور پر وہ کرونا کے خوف کو بھول کر اس شاہکار قدرت میں کھو گئے۔
٭٭٭٭٭
امریکی دھمکی کے بعد بھارت نے کلورو کوئین کی برآمد سے پابندی ہٹا دی
سچ کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ بھارت پر ویسے ہی یہ مثال سو فیصد فٹ نظر آتی ہے۔ خدا جانے بھارتی حکمرانوں کے دماغ میں نفرت اور تعصب کا خناس کیوں کوٹ کوٹ کر بھرا رہتا ہے۔ وہ ہر وقت اپنی برتری کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ بھارت کلور وکوئین نامی دوا جو ملیریا میں عام استعمال ہوتی کی پیداوار میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں یہ دوا موثر ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے۔ اس موقع پر جب دنیا بھر کی اقوام ایک دوسرے کی مدد کر کے اس وائرس کی روک تھام میںمصروف ہیں۔ بھارت نے گزشتہ روز کلورو کوئین کی بیرون ملک فروخت پر پابندی لگا دی۔ یہ تو شکر ہے کہ اس وقت سپرپاور امریکہ پر مودی سے بھی بڑا تنک مزاج ٹرمپ حکمران ہے جو فوری ردعمل میں ذرا بھر تاخیر نہیں کرتے۔ انہوں نے فوراً بھارت کے وزیراعظم کی گوشمال کرتے ہوئے اسکے کان مروڑے اور جوابی کارروائی کی دھمکی اور چین کی مدد کے لیے آگے بڑھنے کا فیصلہ سنایا تو بھارتی حکمرانوں کی سٹی گم ہو گئی ان کی عقل ٹھکانے آ گئی اب ایک ہی دن میں بھارت نے کلورو کوئین کی برآمد سے پابندی ہٹا لی ہے۔ اسے کہتے ہیں ’’سو سُنار دی تے اک لوہار دی‘‘ کاش صدر ٹرمپ کشمیر کے مسئلہ پر بھی ایک ایسا ہی انتہائی فیصلہ کریں یہ مسئلہ بھی چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں امدادی راشن فروخت کرنیوالوں کی ویڈیوز
یہ صرف کراچی میں ہی نہیں ہو رہا ملک بھر میں ایسا ہو رہا ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے یہ بھکاری نما لٹیرے کس طرح غریب مستحق لوگوں کا حق مار رہے ہیں۔ اس عام سی بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی کس بدترین سطح پر گر چکا ہے۔ سفید پوش غریب مستحق شرم کے مارے ہاتھ پھیلا نہیں سکتے گھروں میں چپ بیٹھے بھوک و افلاس کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں اور یہ بدقماش پیشہ ور لوگ ان کا روپ دھار کر سرکاری اور مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والے امدادی سامان دھڑا دھڑ وصول کر رہے ہیں۔ پورے کا پورا خاندان لائن میں لگ کر پہلے ایک جگہ سے پھر دوسری جگہ سے سامان وصول کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں وائرل ہونے والی ویڈیو میں اس قماش کے لوگ جب دکانوں پر جا کر یہ سامان فروخت کرتے ہیں تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ راشن کا سامان بہت مل گیا ہے اب یہ چاول ، آٹا اور دالیں زیادہ ہیں اس لیے فروخت کر رہے ہیں۔ کئی لوگ تو اس کے بدلے شیمپو، صابن و دیگر پرتعیش اشیا خرید رہے ہیں۔ حکومت اب کوئی ایسا طریقہ وضع کرے کہ اس لوٹ مار میں ملوث افراد کو پکڑا جا سکے اور دکاندار کو بھی ہدایت جاری کرے کہ وہ امدادی سامان نہ خریدیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہر امداد لینے والے سے اس کا شناختی کارڈ چیک کر کے کارڈ اور اس کا فیملی نمبر لیا جائے جو کمپیوٹر میں ڈالا جائے تاکہ وہ ایک ماہ سے پہلے کہیں اور سے سامان نہ لیں سکیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب کے بعد سندھ کے سکولوں کو بھی فیسوں میں 20 فیصدکمی کی ہدایت
یہ ہدایت کیا جاری ہوئی نجی سکولوں کی انتظامیہ اور ان کی پروردہ ایسوسی ایشنوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اب یہ دونوں ہاتھوں سے تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے والے لوگ جنہیں نہ تعلیم کا تجربہ ہے نہ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں مل کر حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔ حکومتی احکامات پر عمل کرنے کی بجائے فیس میں 20 فیصد کمی کے فیصلے کو عدالتوںمیں لے جا رہے ہیں۔ یہ وہ مافیا ہے جو تعلیم کی آڑ میں تجارت کر رہا ہے۔ ان میں سے اکثریت کے سکول تو سکول کہلانے کے حقدار بھی نہیں 3 مرلے 5 مرلے کے گھروں میں ہر گلی کوچے میں چار یا پانچ کمروں پرمشتمل مکانوںکو سکول کا نام دے کر اپنا منافع بخش کاروبار چلا رہے ہیں۔ سارا سال فیس ہی نہیں مختلف فنڈز کے ناموں پر بچوں سے ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کو تنخواہ کے نام پر چندہزار روپے دے کر ان کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ ویسے اکثر سکولوں میں میٹرک یا ایف اے پاس ٹیچرز بھرتی ہیں۔ جبکہ سرکاری طور پر ٹیچرز کے لیے سی ٹی ، بی ایڈاور ایم ایڈ لازمی ہے۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اب طلبہ کے والدین کو ذرا سی رعایت ملنے پر یہ سکول مالکان آپے سے باہر ہو رہے ہیں تو حکومت اور کچھ نہیں تو سکولوں کے لیے مقررہ فیس کھلی عمارت گرائونڈ، لائبریری ، لیبارٹری کی شرائط پر بھی سختی سے عمل کرائے تو یہ برساتی کھمبیوں کی طرح قدم قدم پر کھلے لوٹ مار کے مراکز چلانے والوں کے ہوش خود بخود ٹھکانے آ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭