سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے

تحریک انصاف جو ایمانداری ، کرپشن کے خلاف مہم کو اپنے گلے میں لٹکا کر اقتدار میں آئی۔ پاکستان کے عوام کے ستر سالوں کی لوٹ کھسوٹ سے پریشان تھے ۔ کرپشن اور بے ایمانیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے ‘ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ پی پی پی ، اور مسلم لیگ ن نے اپنے دور میں ہسپتال نہیں بنائے، اسلئے آج کرونا کے مریضوں کو علاج میں مشکل پیش آرہی ہے ، تحریک انصاف کے اس بیانئے میں ایوب خان کے دس سال، مشرف کے دس سال، ضیاء کے گیارہ سال نہ جانے کیوں نکال دیئے جاتے ہیں جبکہ ستر سالوں سے ہسپتال نہیں بنے یہ حقیقت ہے ۔کرپشن اور بے ایمانیوں کی قدیم تاریخ میں چند چہرے ، چند خانوادے ، چندمراعات یافتہ لوگ ، کہیں نہ کہیں کرپشن کی کہانیوں ، ملک کو لوٹنے کی کہانیوں میںنظر آئینگے ۔ آج اگر جہانگیر ترین ارب پتی بن کر میدان میں کودے ہیںتو وہ کہیں سامنے کہیں پوشیدہ کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔ پاکستان کے میڈیا کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کون کون چور ہے اور ’ایماندار ‘‘ اور وہ کہاں کھڑا ہے ۔میڈیا وزیر اعظم کی کرپشن فری پالیسی کی حمائت میں انکی مدد کر رہا تھا ۔
حکومت چاہتی ہے کہ حالیہ اربوں روپیہ کی کرپشن کو پردہ چاک کرنے کا اعزاز اسے دیا جائے۔ چلو مان لیتے ہیں ۔ مگر اس میں نقصان ہے چونکہ وزیر اعظم ہمیشہ جہاں گزشتہ کرپٹ لوگوں کا ذکر کرتے ہیں وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں میں بحیثیت کپتان ورلڈ کپ لایا ، اگر یہاں وزیر اعظم کی بات کو مان لیا جائے تو حکومتی ٹیم کے کپتان بھی وہی ہیں ، یہ تو کوئی نہیں کہے گا کہ وزیر اعظم خداناخواستہ اس بڑے گھپلے میں شامل تھے ، یہ بات ضرور ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم لوگوں کو پہچاننا انکی ذمہ داری بنتی ہے ۔جنہیں خود وزیر اعظم بھی حکومت میں آنے سے قبل ڈاکو کہہ چکے ہیں وہ بھی اس حالیہ کرپشن کا حصہ ہیں۔ ای سی سی کے اجلاس کی منظوری کے بغیر پنجاب از خود کیسے سبسڈی دے سکتا ہے ۔ ؟
اب گیند وزیر اعظم کے وسیم اکرم پلس کی کورٹ میں ہے ۔ اب عوام کو اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے اور ٹھیک بھی ہے کہ کرپشن توہر حکومت میں ہوتی ہے اور ہوتی رہی ہے مگر جس طرح وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں کرپٹ لوگوں کی رپورٹس زبان زد عام کردیں ۔ اب کہا جارہا کہ ایکشن ہوگا 25 اپریل کی رپورٹ کے بعد ۔ یہاں شک پیدا ہوتا ہے چونکہ جس ملک میں صرف کہانیوں کی بنیاد پر حزب اختلاف کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ، میڈیا ٹرائل ہوتاہے ،
کابینہ میں حزب اختلاف پر تنقید کا port folio رکھنے والے وزراء ، اور مشیران اچھے خاصے ٹی وی پروگراموںکے درمیان میں آکر پریس کانفرنس شروع کردیتے ہیں حزب اختلاف پر دل کا غبار اتارتے ہیں ان مشیران سے کوئی بعید نہیں اپنی جماعت کے لوگوںکی کرپشن کا ذمہ دار بھی وہ حزب اختلاف کو قرار دے دیں ، تحریک انصاف کا اس سلسلے میں سابقہ ریکارڈ قابل تعریف نہیں جب ایک وفاقی وزیر کو دوائوںکی قیمتوں میں کروڑوں کمانے پر صرف وزارت سے ہٹا دیا گیا ، نیب کا راستہ نہیں دکھایاگیا اور اب اتنی بھاری مالیت کی کرپشن پر صرف وزارتوںمیں رد و بدل … بقول جہانگر ترین جس کمیٹی کے وہ چئیرمین کبھی نہیں رہے اس کمیٹی سے انہیں سبکدوش کیا گیا ہے۔ میں صدق دل سے مان لیتا ہوں کہ وزیر اعظم کا حالیہ ایکشن کم از کم لوگوںکے نام آنا ،بھی کم نہیں کوئی حکومت یہ پنگا بھی نہیں لیتی اور خاص اس صورت میں جبکہ اسمبلیوں میں انکی اپنی جماعت کی مطلوبہ تعداد نہ ہو اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد کیلئے اپنا جہاز اور ’’دیگر ذرائع‘‘ استعمال کرنا ، سینٹ کا انتخاب اور ایم کیو ایم کی حسب عادت ضرورتوںکو پورا بھی جہانگر ترین ہی نے کیا ۔ انتخابات سے قبل بھی جہانگر ترین کا ایک بہت بڑا سرمایہ بھی انتخابی مہم پر لگا تھا ، اور کوئی بھی کاروباری شخص fesibility رپورٹ بنائے بغیر کہیں سرمایہ کاری نہیں کرتا ۔
کل الیکشن ہونگے ، اراکین اسمبلی اِدھر اُدھر بھاگیں گے تو جہانگر ترین بہت یاد آئیں گے۔ایک انٹرویو میں جہانگر ترین سے ایک اینکر نے دھرنے کی کہانی جاننا چاہی ، کہ شائد وہ وزیر اعظم سے ناراض ہیں کچھ بتادیں جہانگیر ترین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں بھول گیا ہوں مجھے دھرنے کے وقت کے معاملات یاد نہیں ۔ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم کل ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں ، سیاسی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ بہت بڑا اقدام ہے وزیر ا عظم کا تاحال۔ چونکہ جس شخص کو عدالت عظمیٰ نے نا اہل کردیا وہ آج تک حکومتی حلقوںمیںاہم رکن تھا اور اپنا خرچ کیا ہوا سود کے ساتھ واپس لے رہا تھا ۔
یہ بھی شنید ہے کہ انہیں کسی وجوہ کی بناء پر نا اہل کیا گیا تھا‘ ورنہ اپنی دولت کے بل پر جس طرح وہ اراکین کی قیمت ادا کیا کرتے تھے وہ یہ قیمت اپنی حمائت کیلئے ادا کرسکتے تھے ۔ چونکہ موسم سو موٹو ایکشنز کا نہیں ہے ، کرپشن کی اتنی اہم خبر آنے پر نیب بھی کروناء وائرس کی بناء پر isolation میںہے ۔تو قارئین انتظار کریں کہ 25 ُاپریل کے بعد کیا ہوگا تاکہ وزیراعظم کے اقدام کو بھر پور سراہا جائے ۔