برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو تجسس اور تحقیق کے کئی دَر وا ہوتے ہیں۔ سکندر یونانی، جو لیئس سیزر رومی، چنگیز، ہلاکو وغیرہ نے جو فتوحات کیں ان میں انفرادی عمل نمایاں نظر آتا ہے۔ عربوں کے جو قدم بڑھے تو ان کے پیچھے فلسفہ اسلام تھا۔ مگر برطانیہ نے جو تسلط قائم کیا۔ اس کے پس پردہ عسکری قوت کم اور ایک عیار ذہن زیادہ کار فرما نظر آتا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، مشرقِ وسطی، ہندوستان، ملائیشیا، سنگاپور، برما، ہانگ کانگ اور کئی دیگر ممالک ان کی کالونیاں بن گئیں۔ ایک وقت تھا کہ برٹش ایمپائر پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ جب لندن میں سورج غروب ہوتا تو آسٹریلیامیں شاہِ خاور اپنی بارہ گھوڑوں کی بگھی پر نمودار ہوتا۔ وہاں جب ڈھلتا تو لندن میں اسکی سُنہری کرنیںماحول میں سونا بکھیر دیتیں!
امریکہ اسپین کے کولمبس نے دریافت کیا مگر حاکم یہ بن گئے۔آسٹریلیا کیپٹن کُک کے جانے سے پہلے ہی دریافت ہو چکا تھا۔ ولیم جانزون، ایبل ٹسمین ، چینی مہم جو مگر وہاں قدم رکھتے ہی وہ گھبرا گئے۔ نہ کھانے کے لیے گندم ، جو، چاول نہ پینے کے لیے صاف پانی، زراعت مفقود، بھیڑ، بکری، گائے ، بھینس ، گھوڑا ، ہاتھی ، اونٹ ناپید۔ سوائے کانگرو ، کوالا اور ڈنگو (جنگلی کتا) کے کوئی جانورنہ تھا۔ زبان نہ بولنے اورنہ لکھنے والی۔ اتنے بڑے علاقے میں ننگ دھڑنگ کالے بھجنگ نہایت محدود تعدادمیں ایب اور جینزبستے تھے۔ ان کی خوراک کچی چھلی، حشرات الارض اور جڑی بوٹیاں تھیں۔ سب نے اسے وسیع و عریض قبرستان قرار دیا جہاں مرا تو جا سکتا تھا زندگی نمو نہیں پا سکتی تھی۔
1780ء میں برطانوی جہاز راں کیپٹن کک کو سمندری طوفان نے وہاں پہنچا دیا ۔ اس نے جہاز سے اُتر کر سڈنی کی چٹان پر کھڑے ہو کر وسیع و عریض رقبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور واپس برطانیہ پہنچ کر ایک ماہرانہ مشورہ دے ڈالا۔ (IT IS A FIT PLACE FOR COLONIZATION) اس کا فرمایا ہوا مستند قرار پایا اور 1788ء میں کیپٹن فلپس تین جہاز لیکر سڈنی پہنچا اور اس طرح آسٹریلیا برٹش کالونی بن گیا۔ انہوں نے چین سے ہانگ کانگ چھین لیا، سلطان جاہور سے سنگاپور ہتھیا لیا، ملائیشیا، برما، تھائی لینڈ بال بال بچے۔
اصل کرشمہ انہوں نے ہندوستان میں دکھایا۔ ایک انگریز ڈاکٹر سرتھامس رو جہانگیر کے دربار میں آیا۔ تجارتی کمپنی کی طرف سے شاہ کے حضور تمباکو اور شراب پیش کیا اور واپسی پر تجارت کرنے کا اجازت نامہ لے گیا۔ شراب اور شباب کے رسیا شاہ کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسنے درحقیقت آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پروانہ لکھ کر دے دیا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے مسلمان مورخین اس کی تعریف میں رطب اللسان کیوں ہیں! ’’عدل جہانگیری‘‘ کا ذکر کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اس دھوبی کا واقعہ بطور ثبوت پیش کرتے ہیں جسے اس کی چینی ملکہ نورجہاں نے ’’ایک دید کی گستاخی‘‘ پر اگلے جہان پہنچا دیا تھا۔ دھوبی کی نالش پر شاہ نے اپنی چہیتی ملکہ کے لیے موت کا حکم صادر فرمایا مگر سارا قصہ خوں بہا پر منتج ہوتا ہے۔ محل میں آ کر اس نے ناراض ملکہ کو ان معذرت خواہانہ الفاظ سے منا لیا۔ ’’تو اگر کشتہ شُدی آہ چہ می کردم من ‘‘اس قسم کے ’’دھوبے‘‘ واقعات جہانگیر کی اصلیت کو نہیں چُھپا سکتے۔ درحقیقت اس سے زیادہ نااہل، نالائق، عیاش اور بدقماش بادشاہ مغلوں کی تاریخ میں نہیں گزرا۔ امتیاز علی تاج نے اپنے ڈرامے انار کلی، میں اسے ’’تیمور کی نامرد اولاد‘‘ کہا ہے۔ کس طرح یہ ایک معصوم اور بے بس لڑکی (انار کلی) سے محبت کا ڈھونگ رچاتا ہے اور جب مہابلی کے حکم پر اسے دیواروں میں چُنا جاتا ہے تو یہ خواب استراحت کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے۔ اپنے جوان بیٹے شہریار کو اس نے زندہ درگور کر دیا، اس کے ساتھیوںکو برہنہ کر کے گدھے اور بیل کی کھال میں سنچوا دیا۔ جب جلوسِ رسوائی نکلا تو ان کامنہ گدھے کی دُم کی طرف تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو بعد میں معاف کردیا اور ایک لاکھ اشرفیوںکے عوض اپنی بیٹی اس کے عقد میں دے دی۔ نور جہاں کے پہلے خاوند شیرافگن کے ساتھ جو انصاف ہوا وہ بھی تاریخ عبرت کا ایک حصہ ہے۔ شام کو شراب میں افیون ملا کر پیتاتھا۔ مدہوشی کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ وہ اس کے منہ میں ٹھونسا جاتا تھا۔
خیر یہ توجملہ معترضہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ڈائریکٹر کلائیو نے جنگ پلاسی کے بعد سلطنت برطانیہ کی بنیاد رکھ دی۔ 1857ء کی جنگ کے بعد مغلوں کی برائے نام حکومت بھی جاتی رہی۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھیج دیا گیا جہاں ز ندگی کے بقیہ ایام اس نے چند ٹوٹی پھوٹی غزلیں کہہ کر گزارے۔
برطانیہ نے دو عالمی جنگیں مضبوط معیشت کی بنیاد پر لڑیں اورجیتیں۔پہلی جنگِ عظیم میں اتحادی طاقتوں سے جو بھول ہوئی تھی اس کا ازالہ دوسری جنگ کے بعد کر دیا گیا۔معاہدہ و رسائی کی بنیاد انتقام اور تفاخر پر رکھی گئی ۔
جرمنوں سے ایک ذلت آمیز معاہدہ کروایا گیا۔ مقصد یہ بھی تھا کہ جرمنی دوبارہ اپنے پائوں پر کبھی کھڑا نہ ہو سکے۔ طاقت کے نشے میں فاتح ملکوں نے مفتوح کے مزاج اور تاریخ کو یکسر فراموش کردیا ۔ نتیجتاً ہٹلر انتقام کا نعرہ لیکر ابھرا۔ فیلڈ مارشل ہنڈن برگ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے چانسلر بنانا پڑا ۔ اس نے ساری جرمن قوم کو یکجا کیا اور دوسری جنگ عظیم میں مغربی ممالک کی فوجوں کو روئی کے گالوں کی طرح دھنک کررکھ دیا۔ فتوحات کا سلسلہِ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ اسکی بنیادی وجہ امریکہ کا جنگ میں کودنا اور برطانیہ کی ثابت قدمی تھا۔ سمندروں نے اس جزیرہ نما ملک کی ہمیشہ حفاظت کی ہے۔ ویسے بھی جیمز بانڈ کی طرح چومکھی فلموں میں تو لڑی جا سکتی ہے۔ اصل زندگی میں ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔ خوش قسمتی سے برطانیہ کو چرچل جیسا لیڈر مل گیا جس نے اپنی تحریروں ، تقریروں اور غیر متزلزل عزم سے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ روس پر حملہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اس نے محاوراتی اونٹ کی کمر توڑ دی۔
گو جرمنی اور جاپان شکست کھا گئے لیکن اس مرتبہ اتحادیوں نے پہلی جنگ والی غلطی کو نہ دہرایا۔ ان کی تضخیک اور تذلیل نہ کی بلکہ ان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا۔ جاپان کا آئین جنرل ڈگلس میک آرتھراور یشیورا نے مل کر لکھا ۔ امریکہ نے اس کے ساتھ کئی معاشی اور جنگی معاہدے کئے۔ اسی طرح یورپ میں مارشل پلان لایا گیا۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے زخموں پر پھاہا رکھا، ہر طرح سے اس کی دلجوئی کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی بھی بالآخر اکٹھے ہو گئے۔ دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہونی ہونی ہوگئی۔ یورپین یونین کی شکل میں 27 ممالک معاشی طورپر یکجا ہو گئے۔ کامن کرنسی‘ فرانک‘ مارک‘ لیرا پیسوں کی جگہ یورو نے لے لی۔ تمام ممالک نے اپنے بارڈر کھول دیئے۔ فری ٹریڈ اور کسٹم یونین‘ یورپین پارلیمنٹ‘ بنک۔ کہاں یہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے اور کہاں ایک دوسرے پر نثار ہونے لگے۔ نیٹو اگر ملٹری پیکٹ ہے تو یہ بہت بڑا معاشی معاہدہ۔ جس نے ممبر ممالک کو خوشحال کیا۔ دور ابتلا میں سپین اور اٹلی جیسے ممالک کی مدد اور معاونت کی۔
کچھ تحفظات کے باوصف برطانیہ بھی اپنے آپ کو الگ تھلگ نہ رکھ سکا۔ اتنی بڑی پورپین مارکیٹ کو چھوڑا بھی نہ جا سکتا تھا۔ نتیجتاً اس نے بھی یورپی یونین جائن کر لی۔ البتہ ایک چالاکی کر گیا۔ اپنی کرنسی پونڈ کو ایک مناسب وقت تک الگ رکھا۔ تمام تر فوائد کے باوصف ملک کے اندر سے دبی دبی آوازیں اٹھنی شروع ہو گئیں۔ الحاق ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے۔ کنزرویٹو پارٹی نے الیکشن سے پہلے وعدہ کیا کہ وہ جیت کے بعد ریفرنڈم کروائیں گے۔ آیا برطانیہ کو یورپین یونین میں رہنا چاہئے یا نہیں؟ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہوا جو جنگ کے بعد چرچل کو ہوئی تھی۔ وہ ریفرنڈم آسانی سے جیت جائے گا۔ تمام اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اکثریت نے یونین سے باہر ہونے کا عندیہ دیدیا۔ نتیجتاً کیمرون کو وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی۔
اس کی جانشین تھریسامے نے وزارت عظمیٰ کا چارج تو سنبھال لیا‘ لیکن اپنے کنڈکٹ سے اس نے ثابت کیا کہ یہ اس منصب کی کسی طرح بھی اہل نہیں ہے۔ کامیابی کے زعم میں الیکشن کروا بیٹھی۔ جیتنا تو کیا تھا‘ اپنی ایک درجن سیٹیں بھی گنوا بیٹھی۔ اصولاً اسے مستعفی ہو جانا چاہئے تھا‘ لیکن مخصوص حالات کے پیش نظر مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ تین سال کی گفت و شنید کے بعد اس نے جو یورپین یونین کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اسے برطانوی پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا۔ گویا 29 مارچ کو بغیر کسی معاہدے کے علیحدگی ہو جانا چاہئے۔ اس کے جو تباہ کن معاشی نتائج ہونگے اس سے بھی سب آگاہ ہیں۔لہٰذا ممبران پارلیمنٹ نے وزیراعظم کو کہا ہے کہ وہ تاریخ میں توسیع کی درخواست کرے۔ بالفرض توسیع مل بھی جاتی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ یورپین یونین کسی صورت میں بھی مزید نرمی برتنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہرچند کہ نوڈیل کی صورت میں برطانیہ کا تو معاشی طورپر تیا پانچہ ہوگا ہی اسے بھی نقصان پہنچے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ توسیع کی صورت میں برطانیہ پر جرمانہ ڈال دیا جائے۔
برطانیہ اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے اسے شیکسپئر کے کردار ہیلمٹ کے الفاظ میں To be or not to be کہا جا سکتا ہے۔ یہ سمندر اور گہری چٹان کے درمیان گھر گئے ہیں۔ دوسرا ریفرنڈم نہیں ہو سکتا۔ غیر معینہ مدت کیلئے اسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں دو آرا نہیں کہ ’’نوڈیل‘‘ کی صورت میں برطانوی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ شاطر انگریز کو پتہ ہے کہ جب ساری جا رہی ہو تو آدھی چھوڑنا بہتر ہوتا ہے۔ ان معروضی حالات میں وزیراعظم نے جو معاہدہ کیا ہے اسے قبول کرنے میں ہی عافیت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38