بے لگام خواہشات اور میانہ روی
انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ اسے اپنی خواہشات کرنے پر قدرت حاصل ہے ، نہ تو کوئی کسی کو کسی بھی چیز کی خواہش کرنے سے روک سکا ہے اور نہ ہی روک پائے گا لیکن ضروری نہیں کہ ہر کسی کی ہر ایک خواہش پوری بھی ہو جائے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خواہشات کا پورا ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پہ ایک غریب ترین شخص دنیا کی امیر ترین لڑکی سے شادی کی خواہش تو
ضرور کر سکتا ہے مگر اس کی اس خواہش کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔آج کل کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مادہ پرستی کے اس دور میں انسان کی خواہشات ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتیں ، ہر کوئی اچھے سے اچھے اور نئے سے نئے کی تلاش میں ہے ، ایک لحاظ سے یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ جب تک انسان کو اچھے سے اچھے کی تلاش نہیں ہوتی وہ کوئی کام بھی محنت سے نہیں کر سکتا ، ہمیشہ بہتر سے بہترین کی طرف جانے کے لیے تگ و دو اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے ، انسان کی خواہشات ہی اْسے آگے سے آگے بڑھنے پہ مجبور کرتی ہیں ورنہ زندگی رْک سی گئی ہوتی اگر خواہشات ختم ہو جاتیں تو۔ جہاں ایک طرف تو خواہش کرنا انسانی فطرت ہے تو دوسری طرف اپنی خواہش کو پانے کے لیے دوسرے کو نقصان پہنچانا بھی بعض لوگوں کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے ، کیونکہ دنیا میں لاکھوں لوگ ہونگے جو اپنی خواہشات کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہونگے اور دوسروں کی حق تلفی بھی کرتے ہونگے جوکہ شاید نہیں بلکہ یقیناً دنیا کے ہر مذہب میں ہی گناہ تصور کیا جاتا ہوگا۔
خواہشات ہی انسان کو اپنے اللہ سے قریب کرتی ہیں اور خواہشات ہی انسان کو گناہ کی صورت میں اللہ سے دْور بھی کرتی ہیں۔ خواہشات ہی انسان کو انسانیت کی خدمت پر اعلیٰ درجوں پر فائز کرتی ہیں اور خواہشات ہی انسان کو پستی میں دھکیل دیتی ہیں۔ خواہشات ہی انسان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچاتی ہیں تو خواہشات ہی انسان کی بدنامی کا سبب بنتی ہیں ، خواہشات کی تکمیل ہی انسان کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرا کر انعام واکرام کا باعث بنتی ہیں اور خواہشات ہی نقصان کا باعث بھی بنتی ہیں۔انسان کی خواہشات کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ایک فطری عمل ہے ، بچپن کی خواہشات بہت سادی اور مختصر ہوتی ہیں جبکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہی خواہشات پہلے سے بڑی ، مشکل اور مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور ایک وقت انسان کی زندگی میں ایسا آتا ہے کہ جب اس کی خواہشات بالکل بے لگام یعنی اسکے قابو سے باہر ہوجاتی ہیں جنکی تکمیل کے لیے وہ یا تو محنت کرتا ہے یاپھر شارٹ کٹ کی تلاش کرتا ہے اور یہی شارٹ کٹ انسان کے لیے ضرررساں بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک سْنہری قول ہے ‘‘ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ ‘‘ یعنی کہ میانہ روی اختیار کی جائے ، میانہ روی ضروری نہیں کہ صرف اخراجات میں کی جائے بلکہ میانہ روی کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر موڑ پر اپنایا جا سکتا ہے ، چاہے کھانا پینا ہو ، سونا ہو ، پڑھنا ہو سب ہی معاملات میں اسکی اہمیت ہے۔ رشتوں میں میانہ روی برقرار رکھنا کامیاب زندگی گزارنے کی کْنجی ہے۔ خاص طور پر جس طرح ہمارے ملک میں ابھی تک مشترکہ خاندانی نظام یعنی جوائنٹ فیملی سسٹم رائج ہے اس میں تو میانہ روی کا انتہائی اہم کردار ہے ، اس نظام میں کسی بھی ایک طرف جھکاؤ گھر کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔انسان اپنی خواہشات کو اگر کنٹرول کرنا چاہے تو اس کا واحد حل میانہ روی ہی ہے کیونکہ جب تک میانہ روی کا زندگی میں عمل دخل نہیں ہوتا تو پھر خواہشات پہ قابو نہیں پایا جا سکتا۔ خواہشات کو اپنے تابع کرنے کے لیے انسان کو اپنی اوقات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہئیے یعنی کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جب بھی ہم اپنے سے بڑی حیثیت والوں کو دیکھیں گے تو پھر ہم اپنے آپ کو ان جیسے بنانے کے لیے بے جا خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے جس میں کامیابی کا حصول تقریباً نا ممکن ہوگا ، جبکہ اسکے مقابلے میں اگر ہم اپنے سے کم حیثیت اور مرتبے والے لوگوں کو دیکھیں گے تو پھر ہم خدا کا شکر ادا کریں گے کہ اللہ نے ابھی بھی مجھے لاکھوں کروڑوں لوگوں سے اچھا نوازا ہوا ہے ، نتیجتاً خواہشات کم ہونگی اور میانہ روی بڑھے گی۔ اسلام میں فضول خرچ کو شیطان کا دوست کہا گیا ہے اور یہ فضول خرچ کسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے نہ کہ صرف پیسے کا۔
آج کا دور چونکہ خود پرستی اور خود غرضی کا دور ہے اس لیے ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح سے کامیابی حاصل ہو جائے چاہے اس کامیابی کو پانے کا طریقہ جائز ہو یا ناجائز اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کہ اپنی خواہشات کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں ، بلکہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر دوسروں کی حق تلفی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ، ایسی کامیابی کا کیا فائدہ جو کہ دوسروں کا حق غصب کر کے حاصل کی گئی ہو۔ ظاہر ہے انسان کبھی بھی کسی کا حق مار کر اور اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کر کے دائمی خوشی اور سکون حاصل نہیں کرسکتا جتنا کہ جائز طریقے سے اور دوسروں کے حقوق اور خواہشات کا احترام کر کے حاصل کر سکتا ہے۔