کیا محض آزادی کا نعرہ لگانا بغاوت‘ غداری اور وطن دشمنی کے زمرے میں آئے گا؟ہاورڈ سے پڑھے انڈین اسکالر گار گا چٹر جی نے یہ سوال ـ’’انڈیاکے زیر انتظام‘‘ کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کے پس منظر میں اُٹھایا ہے۔ گزشتہ تین دہائی میں کم وبیش 50 ہزار سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے۔ ہندوستان کی سب سے عمدہ بلکہ عام بھارتی کی زبان میں ’’بڑھیا‘‘ تاریخی ثقافت، ادب اور صنعت کاری رکھنے والی کشمیری قوم تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان سے وابستگی کا یہ عالم ہے کہ شہادت کے بعد شہید کشمیری کا جسدِ خاکی۔ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جاتا ہے۔ گار گا چٹر جی نے بھارتی آئین اور سپریم کورٹ میں دئیے گئے فیصلوں کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگانا غداری کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
Sedition Law 124A کا حوالہ دیتے ہوئے چٹر جی کہتے ہیں کہ جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کی چڑھائی سے سینکڑوں سکھوں کو قتل اور ہزاروں ’’خالصتان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا تو اُس وقت کی سپریم کورٹ نے طویل بحث و دلائل کے بعد یہ ’’فیصلہ‘‘ دیا تھا۔
تاہم جہاں سپریم کورٹ نے ’’محض آزادی‘‘ کا نعرہ لگانے کو غداری اور بغاوت قرار نہیں دیا تھا وہیں سپریم کورٹ کے ایک اور فاضل چیف جسٹس مارکنڈی کٹوجہ نے ’’لفظ آزادی‘‘ سے آگے بڑھنے پر اپنی یہ آبزرویشن دی تھی کہ اگر آزادی کے ساتھ تشدد یعنی Violence کا راستہ اختیار کر کے قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو پھر ریاست اپنا یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اسے روکنے اور دبانے کے لئے ریاستی مشینری کو استعمال میں لائے۔۔
چٹر جی نے اس سلسلے میں ایک اور مثال تامل ناڈو کی دی ہے۔۔ جسکے پاپولر رہنما C.N.Annadurai کی جماعت نے 2016 کے الیکشن میں 232کی اسمبلی میں 223 ووٹ حاصل کئے تھے یہ وہی C.N.Annadurai ہیں جنہوں نے 1962میں راجیہ سبھا سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ محض Separation کا نعرہ لگانے سے ’’ریاست کی سلامتی‘‘ کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا نانندی نے اپنی تقریر میں کہا کہ کیوں نہ۔
عوام پر یہ فیصلہ چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں کہ وہ ’’فیڈریشن‘‘ میں رہنا چاہتے ہیں یا اس سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ راجیہ سبھا کی اسی اسمبلی میں تامل ناڈو کے مقبول لیڈر نے کہا میں فخریہ کہتا ہوں کہ میں Dravidian ہوں۔ ہم ایک مختلف تاریخ، ثقافت، زبان اور معاشرت رکھتے ہیں اور اسی لئے ہم Self-Determination کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بھارت کے اس ممتاز اسکالر کے اس موقف کو سامنے رکھ کر ہی یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ اگر بھارتی ریاست اور بھارتی سپریم کورٹ ’’آزادی‘‘ کا نعرہ یا Self-Determination کو تامل ناڈو کے ڈراویڈین اور مشرقی پاکستان کے سکھوں کی آزادی کا نعرہ لگانے اور ہتھیار اٹھاکر مسلح جدو جہد کو۔ ’’غداری‘‘ قرار نہیں دیتی تو پھر۔
کشمیریوں کے لئے یہ دُہرا معیار کیوں؟ یہاں اس بات سے انکار نہیں کہ ’’ افغان جنگ‘‘ کے پس منظر میں جو لشکر، سپاہ اور حزب کے جتھے تیار ہوئے اور جنہوں نے خالصتاً ’’کشمیریوں کی تحریک‘‘ کو ہائی جیک کر کے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اس طرح بھارتی ریاست کو اس بات کا موقع فراہم کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو اس بات پر قائل کریں کہ یہ ponsors Foreign S موومنٹ ہے۔ اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے اوراُن میں یقینا ہمارے وہ نادان دوست بھی شامل ہیں جنہوں نے ’’کابل‘‘ سے اپنا قبلہ سر ی نگر کی طرف موڑ کر آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے مسائل و مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ مگر ’’بہرحال‘‘ یہ ایک تلخ قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔۔ جس سے خود ہمارے وطنِ عزیز نے بھی نقصان اٹھایا۔ تاہم حالیہ مہینوں میں کشمیری اپنے لہوسے جو تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ اُس میں بھارت کے اُن تمام محبِ وطن دانشوروں اور اسکالروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ اب مزید مصلحت کوشی کا راستہ اختیار نہ کریں۔ بھارتی ریاست اور وہاں کے باسیوں اور اسکالروں کو تو خیر جانے دیں خود وطن عزیز میں ’’مختصر‘‘ ہی سہی ایک حصہ ایسا ضرور ہے جو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ہونے والی جدو جہد کو اُن کا جائز حق نہیں ٹھہراتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024