قدرت کے کام
قدرت کے سب کام قدرت ہی جانے
بندہ وہی ہے جو قدرت کو مانے
کہیں پر خوشی ہے تو غم ہیں کہیں پر
فقر ہے کہیں پہ کہیں لعل و جواہر
کہیں تندرستی کہیں پہ بیماری
کہیں قہقہے تو کہیں آہ و زاری
یہ جیون بھی یارو عجب اک تماشا
ہے قائم کہیں تو کہیں ٹوٹے آشا
بہت سے معذور بھی اس کے انساں
کروا رہا ہے وہ بس اپنی پہچاں
وہ خالق و مالک یہ سب اس کی قدرت
یہ دنیا یہ جیون تو ہے ایک نُدرت
بہت ہیں مقدم اسے اپنے بندے
غافل مگر ہم ہوئے اور اندھے
رہیں اس کی ذاتِ کریمی پہ شاکر
خود کو بنا لیں اسی کا ہی ذاکر
ہے جو بھی وہ ہے بس رضا بہ قضا ہی
جو صابر ہیں ان کو وہ دے گا جزا بھی
وہی ذات باری مکمل و کامل
وہ یکتا ہے اس کے نہیں کوئی شامل
انساں کا ہے کام اوروں کی خدمت
اسی میں ہے انسان کی عزت و عظمت
(فاروق اے حارث)