مشہور صحافی اور ادیب خوش ونت سنگھ‘ جس کا انتقال پچھلے دنوں دہلی میں ہوا‘1948ء میں انگلستان میںبھارتی سفارتخانے میں پریس آفیسر تھا ۔ اس کی سوانح عمری (سچ محبت اور ذرا سا کینہ) میں سے ایک اقتباس ملا حظہ ہو: ’اگلی صبح جب میں دفتر پہنچا تومیں نے اپنی میز پر کرشنا مینن(سفیر )کی ایک چٹ دیکھی کہ میں فوری طور پر اسے ملوں میں نے اخبارات کی سر خیوں پر ایک نگاہ ڈالی تا کہ جان سکوں کہ کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی ہے۔ ڈیلی ہیرالڈنے نہرو کی بڑی سی تصویر شائع کی تھی جس میں لیڈی مائونٹ بیٹن شب خوابی کے ڈھیلے ڈھالے لبادے میں اس کے لئے دروازہ کھول رہی تھی تصویر کے نیچے لکھا تھا’لیڈی مائوٹ بیٹن کا آدھی رات کا ملاقاتی‘ قارئین کویہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن لندن میں موجود نہیں ۔ہمارے وزیراعظم کے لیڈی ایڈورینامائونٹ بیٹن سے تعلقات سکینڈل بن چکے تھے۔ ہیرالڈ کے فوٹو گرافر کو ان دنوں کی تصویر لینے کا موقع مل گیا تھا حالت وصل میں نہ سہی۔ کم ازکم اس کی تیاری میں سہی۔‘’جب میں مینن سے ملنے اوپر گیا تو وہ مجھ پر د ھاڑنے لگا’کیا تم نے ہیرالڈ دیکھا ہے؟وزیراعظم تم سے ناراض ہیں میں نے عرض کیا ’اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا علم کس طرح ہوتا کہ پنڈت جی اپنے ہوٹل جانے کی بجائے مائونٹ بیٹن کے گھر جائیں گے۔‘ہم نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ انڈیا کے آخری وائس رائے لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی لیڈی ایڈوینا مائونٹ بیٹن پنڈت جواہر لعل نہرو کی محبت میں گرفتار تھی۔ لیڈی مائونٹ بیٹن نہرو سے ملاقات کیلئے دہلی میں اس کے گھر جایا کرتی تھی اور وائس ریگل لاج یعنی شہنشاہی محل کے سوئمنگ پول میں وہ دن دہاڑے سب کے سامنے اپنے معشوق نہرو کے ساتھ تیراکی کا لطف اٹھایا کرتی تھی جب کہ اس کا خاوند سوئمنگ پول کے کنارے آرام سے کرسی پر بیٹھا ان دونوں کی تیراکی کا نظارہ کر رہا ہوتا۔پنڈت جواہر لعل نہرو کے لیڈی مائونٹ بیٹن سے یہی وہ تعلقات تھے جس کے بل بوتے پر نہرو نے بائونڈری کمیشن کے تیار کردہ نقشے میں تبدیلی کروائی اور گورداسپور کے ضلع کو انڈیا میں شامل کروایا جس سے کشمیر کا سارا تنازعہ پیدا ہوا۔ خوش ونت سنگھ اپنی کتاب ’دی گڈ ‘دی بیڈا دی ری ڈکولس ‘میں لکھتا ہے’جموں اور کشمیر میں جو تنازعہ ہم نے کھڑا کیا اس کا ذمہ دار نہرو ہی تھا‘پنڈت جواہر لعل نہرو کے وزارت عظمیٰ کے دور میں جب میں بھارتی افواج نے کشمیر میں داخل ہو کر مقبوضہ کشمیر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تو پاکستان کی طرف سے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا جہاں نہرو حکومت نے ساری دنیا کے سامنے تحریری طور پر معاہدہ کیا کہ بھارتی حکومت کشمیر میں استصواب کروائے گی اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اہل کشمیر کی رائے کے مطابق کیا جائیگا مگر آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔پنڈت جواہر لعل نہرو کس قسم کا لیڈر تھا اور کس قسم کا انسان تھا اس کا کچھ اندازہ خوش ونت سنگھ کے مندرجہ ذیل اقتباس سے ہوتا ہے جو نہرو کی شخصیت وکردار پر کماحقہ روشنی ڈالتا ہے:’نہرو وسیاسی سوفسطائیت اور قانونی حیلہ جوئیوں سے اپنا دامن نہ بچا سکا۔ کابینہ مشن کی پلان کو تسلیم کر چکنے کے بعد یہ سوچ کر اپنے موقف سے منحرف ہوگیا کہ کہیں جناح متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم نہ بن جائے۔ وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہا۔ مسلمانوں کی علیحدگی کی تحریک اور تشکیل پاکستان کے امکان کا ادراک نہ کر سکا پھر جب پاکستان بن گیا تو اس ملک سے اپنے معاملات بطریق احسن طے نہ کر سکا۔ وہ اقرباپروری اور جانبداری سے کام لیتا تھا لیڈی مائونٹ بیٹن اور شردھاماتا سے اس کے تعلقات کو سب جانتے تھے۔بعض اوقات وہ اچانک اشتعال میں آجایا کرتا تھا اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتا۔ لندن میں اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ ظہرانے میں وہ اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے سو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ جاگا تو ہمارا سفیر (اور نہرو کا چہیتا)کرشنا مینن سو گیا جب اخبارنویسوں اور ایڈیٹروں کے نہرو سے وقفہ سوالات کا وقت آیا (برطانیہ کے زیادہ تر اخبارنویسوں نے کشمیر کے بارے میں ہی سوالات پوچھے)تو نہرو جوابات دینے کی بجائے اوپر چھت کی طرف دیکھتا رہا اور خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا۔ برطانوی پریس کے ساتھ ہماری یہ میٹنگ بری طرح ناکام ہوگئی۔‘
(دی گڈ ‘دی بیڈ اینڈ دی ری ڈکولس مصنفہ خوش ونت سنگھ)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024