باؤ جی اللہ کی رحمت میں چلے گئے!!!!!
31 اگست دوپہر 3 بجکر 23 منٹ پر ساتھی رپورٹر انس سعید کے ساتھ قہوہ پینے کے بعد ہم ریسٹورنٹ سے نکل رہے تھے کہ عبدالقادر صاحب کا فون آیا، فون اٹینڈ کیا اور کہا جی عبدل بھائی کیسے مزاج ہیں۔ کہنے لگے یار حافظ صاحب آپ نے کمال کیا ہے، آپکو کسی چینل پر سن رہا تھا، ہم نے کہا جی عبدل بھائی ایکسپریس نیوز پر مرزا اقبال بیگ کے پروگرام سپورٹس پیج میں سنا ہو گا۔ کہنے لگے ہاں ہاں بالکل وہی دیکھ رہا تھا، بہت اعلی گفتگو کی ہے آپ چیتے لگے ہیں، پھر کہنے لگے اچھا یہ بتائیں کہ یو ٹیوب پر بھی ہیں آپ، ہم نے کہا ہوں تو لیکن زیادہ نہیں، کہنے لگے پھر ہم یو ٹیوب چینل شروع کرتے ہیں۔ ہم نے کہا تفصیلی گفتگو کے لیے آپ کے پاس آتا ہوں، گفتگو مکمل ہوئی تو انس نے پوچھا حافظ صاحب عبدالقادر صاحب کا فون تھا، یو ٹیوب کا کیا کہہ رہے تھے، ہم نے بتایا وہ کہہ رہے ہیں کہ یو ٹیوب چینل شروع کرنا ہے، آئیں اس پر بات کریں۔ انس فوراً بولا سر جی سارے کام ایک طرف یہ فوراً شروع کریں، دیر نہ کیجئے گا۔ انس سعید کو سپورٹس بورڈ ڈراپ کیا اترتے ہوئے اس نے پھر دوہرایا سر جی اس کام میں دیر مت کیجئے گا۔ 3 ستمبر دوپہر سوابارہ بجے ہم انفنٹری روڈ پر باؤ جی کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ مرزا اقبال بیگ صاحب کے پروگرام میں ہونے والے بیپر سے بات چیت شروع ہوئی انہوں نے پھر حوصلہ افزائی فرمائی‘ کہنے لگے میں نے دو مرتبہ آپکو سنا دل خوش ہو گیا ہے۔ کرکٹ بورڈ پر تنقید ہونی چاہیے آپ نے حقیقی مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ پھر عبدالقادر سیاسی صورتحال پر گفتگو کرنے لگے، وہ کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم پر بہت دکھی اور رنجیدہ تھے۔ کہنے لگے وزیر اعظم عمران خان کو بار بار مودی سے نرم زبان میں بات نہیں کرنی چاہیے، وہ ہندوؤں کی برتری کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ نریندرا مودی سے بات اس کی زبان میں ہی کی جائے۔ دل کرتا ہے کہ کشمیریوں کو بھارتی فوج سے چھڑانے کے لیے کام کروں۔ وزیر اعظم میرے دوست ہیں ان سے محبت غیر مشروط ہے ‘انہیں چاہیے کہ اب وہ سیاسی مخالفین بارے بیان بازی ترک کر دیں۔ وہ ملک کے سب سے اہم اور بڑے عہدے پر ہیں‘ اس عہدے کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو سنا جائے، ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ عاجزی اختیار کریں، لوگوں کو بولنے کا موقع دیں۔ وزیراعظم بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں انہیں اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہیے۔ اہم فیصلوں سے قبل دوسروں کی رائے سنیں اسے اہمیت دیں، اپنے فیصلے زبردستی نافذ نہ کریں۔ میں نے اسی کی دہائی کے شروع میں عمران خان کو کہا تھا کہ سیاست میں آئیں وزیراعظم بن جائیں گے اس وقت انہوں نے جواب دیا کہ سیاستدانوں کو گولیاں لگتی ہیں، سیاست میں نہیں آنا چاہتا۔ پھر نوے کی دہائی میں ایک مرتبہ شاہ جمال کے علاقے میں مجھے بلایا، میں گیا کافی لمبی ملاقات تھی گفتگو کے دوران نماز کا ٹائم ہوا تو میں نے پوچھا یار "عمی" جائے نماز کہاں ہے، میرا خیال تھا عمران اس کے جواب میں کہے گا "بڑیاں نمازاں شروع کر دتیاں نیں" انہوں نے مجھے جائے نماز بتائی، بعد میں خود بھی نماز پڑھی۔ یہ میرے لیے حیران کن بھی تھا۔ عمران خان نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے انہیں کہا کہ ان دنوں میں ترجمے کیساتھ قرآن پڑھ رہا ہوں بہت مزہ آ رہا ہے۔ عمران خان کا جواب تھا میں بھی پڑھ رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے میں سیاست میں آ رہا ہوں۔ میں نے کہا آپ تو کہتے تھے کہ سیاست میں گولیاں لگتی ہیں، کہنے لگے بس دیکھا جائے گا۔ میں سمجھ گیا کہ گولیوں کا خوف قرآن پڑھنے سے ہی ختم ہوا ہے۔ عمران خان کو کپتان تو ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد کہنا شروع کیا ہے اس سے پہلے تو عمی" ہی کہتا تھا۔ عمران خان یہ جانتے ہیں کہ عبدالقادر صاف بات کرتا ہے۔ کپتان کے لیے ایک نظم بھی لکھی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ میرے دل سے نکلا ہے۔جب عمران خان کی حلف برداری کی تقریب ہوئی تو اس وقت وزیراعظم نے کہا کہ میں محکمہ جاتی کرکٹ ختم کر رہا ہوں‘ جب عمران خان نے یہ بات کی تو وہاں موجود تمام کرکٹرز خاموش رہے کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا تو میں نے کہا کپتان جی آپ کیسے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم کر سکتے ہیں، اس کی بڑی خدمات ہیں یہاں سے آپکو بہترین ٹیلنٹ ملتا ہے، لوگوں کو ملازمتیں ملتی ہیں۔ کرکٹرز کی فیملیز کو خوشیاں ملتی ہیں، زندگی آسان ہوتی ہے۔ آپ کیسے کر سکتے ہیں لیکن جو بات ایک مرتبہ ان کے ذہن میں پھنس جائے وہ کر کے ہی رہتے ہیں۔ حافظ صاحب حق سچ، قاعدے قانون کی بات کرنی چاہیے۔میں کلب سے لے کر پاکستان تک کا کپتان بنا ہوں، زندگی میں جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا‘ اس قابل کہاں ہوں یہ سب اللہ کی رحمت ہے ‘میں کیوں انصاف کے لیے آواز بلند نہ کروں۔ کرکٹ بورڈ میں نوکری کامیابی نہیں، ملک کی خدمت ، سچی بات، انصاف اور اصولوں کے لیے ڈٹے رہنا کامیابی ہے۔پھر یو ٹیوب چینل پر بات ہوئی، کنگ آف سپن کے نام پر اتفاق ہوا، عبدالقادر کی خواہش تھی کہ اس چینل کے ذریعے وہ کرکٹ کے ساتھ پاکستان کی سیاست پر بھی بات کریں۔ کہنے لگے ہم کوچنگ ویڈیوز بھی اپلوڈ کریں گے۔ کہنے لگے بس آپ میرے ڈائریکٹر ہیں، جیسے کہیں گے ویسے ہی ہو گا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ منتقل کرتا جاوں۔چینل پرومو اور دیگر تکنیکی چیزوں پر کام کرنے اور جلد ہی باقاعدہ کام شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ ہم ساتھ ہی کمرے سے نکلے، چلتے چلتے کہنے لگے سرفراز احمد کی کپتانی پر تنقید غیر ضروری ہے اسے کچھ تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔ ذاتی کارکردگی بھی اچھی ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ نائب کپتان گروم کرنا چاہیے۔ ان کے آخری الفاظ تھے بابر اعظم کو کپتان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عبدالقادر کے انتقال کی خبر سے سب کچھ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
دربار میاں میر میں ان کے جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت عبدالقادر سے محبت کا ثبوت ہے۔ وہ ایک بڑے انسان تھے۔ عبدالقادر کی وفات سے دنیائے کرکٹ کیلئے بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ محب وطن، نرم دل اور خیال رکھنے والے انسان تھے۔ وہ انصاف کی فراہمی، میرٹ کی بالادستی، غربت کے خاتمے، باصلاحیت کرکٹرز کیلئے کھیل کے آسان مواقع پیدا کرنے کے خواب کیساتھ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ عبدالقادر کے انتقال سے محکمانہ کرکٹ کی بحالی کی مضبوط اور توانا آواز خاموش ہو گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا شمار ان کے بے تکلف دوستوں میں ہوتا تھا۔ گہری دوستی،دیرینہ تعلق ، خلوص اور محبت کے باوجود انہوں نے وزیراعظم کے سامنے اور انٹرویوز کے ذریعے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کے خاتمے کی مخالفت کی۔ ان کے بیٹے سلمان قادر ایک اکیڈمی بھی چلاتے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اپنے والد کے اثاثے کو سنبھال کر رکھیں اور حق، سچ کی آواز بلند کرتے رہیں۔ باؤ جی کی فیملی کیلئے یہ بہت بڑا سانحہ ہے‘ اللہ تعالیٰ انکی کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ آمین!