مکرمی! میں آپ کے موقر روزنامے کی وساطت سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ حکومت کے پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کرنے میں پنجاب پولیس کے اہلکار وں کے ہاتھوں تشدد سے صلاح الدین کی ناگہانی موت نے حکمرانوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا ہے مقتول صلاح الدین نے پولیس والوں سے کہا ایک بات کہوں مجھے مارو گے تو نہیں تم لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے یہ چبتا سوال صلاح الدین نے مرنے سے پہلے پولیس سے پوچھا اس نے پولیس والوں سے پانی پینے کی التجا بھی کی تو آگے سے اسے بونکنے کا کہا گیا اس نے شہدا کربلا کا واسطہ دیا لیکن ملکی سلامتی پر حملہ کرنے والے گرفتار بھارتی پائیلٹ ابھی نند ن کو چاہے پیش کرنے والوں نے اس کی ہر التجا کو یہ کہہ کرردکر دیا کہ تم عام انسان ہو اگر تم کوئی بڑے مگر مچھ ہوتے تو ہم ہی نہیں ریاست اور ریاستی ادارے تمہارے ناز بخرے بجا لاتے۔وزیر اعظم بننے سے قبل عمران خان صاحب نے اپنے جلسے جلوسوں میں بڑے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں یہ کفر کا نظام نہیں آج اس باپ پر کیا گزر رہی ہو گی جس نے بیٹے کی تشدد ذدہ لاش دیکھی اور اس باپ کو اس کے بیٹے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ تھما دی گئی کہ اس کے بیٹے کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون ،سانحہ ساہیوال میں فرق صرف اتنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے وقت جو حکمران تھے وہ ظلم کے نظام پر فائز تھے اور سانحہ ساہیوال والے ریاست مدینہ کے خواہاں والے اس ملک میں سانحہ ماڈل ٹائون ،سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین جیسے افراد کے لواحقین کو انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں۔ آج حکمران طبقہ یہی کہے گا کہ کاش صلاح الدین بھی ابھی نندن کا ساتھی (چوہدری فرحان شوکت ہنجرا)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38