اتوار ‘8؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 8 ستمبر 2019 ء
بھارت کا چاند پر اترنے کا دوسرا خلائی مشن بھی ناکام
ہندی زبان میں چاند کو ’’چنداما‘‘ کہا جاتا تھا۔ اردو میں پیارے کو ’’چندا‘‘ کہتے ہیں یہ اسی چندرما سے ملتا جلتا لفظ ہے امریکہ والوں نے 1960ء کے بعد چاند کی دنیا فتح کر لی تھی۔ 2000ء کے بعد بھارت والوں نے تیاریاں شروع کیں۔ مگر وائے افسوس جس ملک کی 60 فی صد آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ اس نے اربوں نہیں کھربوں روپے اس شوق کی نذر کر دیئے۔ چاند فتح کرنے کی حسرت پھر بھی پوری نہ ہوئی۔ وہ بھی اس دور میں جب ایک غریب چائے والا بھارت کا حکمران ہے۔ کہتے ہیں غربت کا درد غریب زیادہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہ بھی غلط نکلا اگر ایسا ہوتا تو مودی یہ خطیر رقم ان غریبوں کے دن بدلنے پر خرچ کرتا جو آج بھی بھارت میں……
چندا ماموں دور کے کھیر بنائیں دودھ سے
خود تو کھائیںتھالی میںہم کو دیں پیالی میں
کہتے ہوئے بھوکے بچوں کو سہلاتے بہلاتے اور سلاتے ہیں۔ اس ایک ماہ میں چاند پہ پہنچنے کی بھارت کی دوسری کوشش بھی ناکام ہوئی۔ اس نے چاند پر اپنا دوسرا خلائی راکٹ جو بھیجا تھا وہ بھی ناکام ہو گیا۔ جس پر خلائی مرکز میں بیٹھے بھارتی وزیراعظم مودی اور بھارتی سائنس دانوں کی حالت جس طرح بگڑ گئی اس سے ان کے چہرے چاند گرھن کا منظر پیش کر رہے تھے۔ کہنے والے تو اس کو کشمیریوں کی بددعاؤں کا نتیجہ کہہ رہے ہیں۔ بھارتی سائنسدانوں کو چاہیے کہ اگر مودی چاند پر جانے کی ضد نہ چھوڑے تو اسے بھی راکٹ میں بٹھا کر خلا میں بھیجا جائے۔
٭…٭…٭
سفارتخانوں کی آڑ میں شراب سمگلنگ کا دھندا
ایسی نجیب الطرفین قوم شاید ہی کوئی اور ہو گی دنیا میں جیسے ہم ہیں۔ ہم جرم اور دو نمبری کے ایسے ایسے طریقے نکالتے ہیں کہ خود جرم کے ماتھے پر بھی ندامت کا پسینہ آنے لگتا ہے۔ بہرحال قصہ کوتاہ۔ کسی دور میں سفارتی سامان کی آڑ میں اسلحہ کا دھندا شروع ہوا تھا۔ چونکہ سفارتخانوںکے سامان کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اسلئے ان کے سامان کی آڑ میں ہر قسم کے ممنوع سامان کی سمگلنگ کا دھندا عام ہوا۔ شراب پر خیر پاکستان میں کون سی ایسی پابندی ہے کہ کہیں بھی نہیں ملتی۔جیب میں پیسے ہوں تو یہ ’’بنت عناب‘‘ جسے انگور کی بیٹی بھی کہتے ہیں ہر جگہ اعلیٰ سے اعلیٰ کوالٹی والی دستیاب ہے۔ مگر پھر بھی یاران خرابات باز نہیں آتے اور جہاں داؤ لگتا ہے اچھی والی مئے منگوانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ سو اب بھی یہی کام شامی سفارتحانے کی آڑ میں کرنے والا گروہ بے نقاب ہوا ہے۔ ان خانہ خرابوں خدائی خواروں کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ اہل شام اس وقت خود تباہی و بربادی کے چکر میں پھنسے ہیں اس کی سفارتحانے والوںکو شراب منگوانے کی کہاں فرصت ہو گی۔ یہ ضرور کسی پاکستان کی ہی اعلیٰ دماغی کاوش ہے۔ اب سفارتخانے والوں نے بھی ایسی کسی حرکت سے انکار کر دیا ہے تو حکومت ازدخوا ایسے بلانوشوں کا سراغ لگائے یا مئے خانے والوں کو زیردام لائے جو ملک کا نام بدنام کرنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ویسے اب یہ بوتلیں تلف ہوتے ہوتے نجانے کتنے احباب میں تحفتاً تقسیم ہوں گی۔
فرانس میں مرغے نے مقدمہ جیت لیا
معمر جوڑے کے اس پیارے راج دلارے مرغے کے بارے میں ہمسائیوں کو شکایت تھی کہ یہ علی الصبح بہت زور دار ’’بانگ‘‘ دیتا ہے۔ جس سے آس پاس کے پڑوسیوںکی نیند اجاڑ ہوتی ہے۔ پڑوسیوں نے اس صبح سویرے اٹھنے کے عادی مرغے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہوا تھا جس میں عدالت نے مرغے کو بری کردیا ہے۔ اب بھلا پڑوسیوں سے جو عقل سے عاری لگتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ بھائی مرغا صبح سویرے بانگ نہیں دے گا تو کیا انسانوںکی طرح سویا پڑے رہے گا۔ جانور فطرت کے اصولوں پر چلتے ہیں شام ہوتے ہی کاروبار حیات یعنی دانہ دنکا چگنا چھوڑکر اپنے اپنے رین بسیروں پر لوٹ آتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔ یہ تو حضرت انسان ہی ہے جو رات گئے تک جاگتا ہے اور صبح دیر تک بلکہ دوپہر تک سویا پڑا رہتا ہے۔
اب عدالت نے مرغے کی بانگ کو قوانین فطرت کے مطابق قرار دیتے ہوئے اس میں مداخلت سے انکار کر دیا ہے۔ سچ بھی یہی ہے دنیا کی کوئی عدالت مرغے کو چڑیوں کو پرندوں کو صبح سویرے چہچہانے سے بانگ دینے سے روک نہیں سکتی۔ یہ فطرت کے حسین اور نرالے انداز اس دنیا کا حسن ہے۔ جن لوگوں کو اس سے پیار نہیں وہ کسی اور سیارے میں جا کر اپنا بوریا بستر کھولیں کریں۔ یا رات کو کان میں روئی ٹھونس کر سویا کریں۔ مرغے میاں کا تو کام ہی صبح سویرے بانگ دینا ہے وہ دیتے رہیں گے کسی کو اچھا لگے یا برا…
٭…٭…٭
لیڈی کانسٹیبل کو تھپڑ مارنے والا وکیل گرفتار
شکر ہے ہتھ چھٹ وکلاء کو بھی کال چکر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ورنہ یہ تو خود کو طالع کے بارہویں گھر میں موجود نجس سیاروں سے کالاکوٹ پہن کر خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ نجانے کیوں پولیس کی وردی ہو یا وکلا کا سیاہ کوٹ یہ خود کو ہر غلطی کے باوجود قانون اور سزا سے مبرا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں قانون پر عمل کرانے والے طبقات ہیں۔ مگر خود کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ پولیس کو قتل عام کا لائسنس حاصل ہے تو وکلاء کو بھی ہاتھ چلانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ پولیس کے ہاتھوں کوئی ذہنی مریض، معصوم طالب علم بچہ یا بوڑھا آئے روز کہیں نہ کہیں ماراجاتا ہے۔ جواب میں صرف معطلی اور تحقیات کا پہیہ گھمایا جاتا ہے جو نجانے کب ٹھہرے۔
یوں گلشن کا کاروبار پہلے کی طرح رواں دواں رہتا ہے۔ اب یہ فیروزوالا میں جس وکیل نے لیڈی پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا وہ بھی خود کو کالاگاؤن پہن کر محفوظ عن الخطا سمجھتا ہوگا۔ حالانکہ سرعام ایک خاتون پر ہاتھ اٹھانا ہی بڑا جرم ہے۔ ایک سرکاری باوردی ملازم پر تشدد اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ اب جب وہی لیڈی پولیس اہلکار اسے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرنے لا رہی تھیں تو اس کا چہرہ مطمئن تھا۔ پریشان تو وہ وکیل بھی نہیں تھا جس نے یہ حرکت کی۔ شاید اسے بھی معلوم تھا کہ اسکے پیٹی بھائی اسے بچا لیں گے جس طرح ذہنی معذور یا نو عمر طالب علم اور نوجوان کو تھانے میں تشدد سے ہلاک کرنے والوں کو امید ہے کہ انہیں ان کے پیٹی بھائی بالآخر انہیں بچا ہی لیں گے…