رﺅف طاہر
ہمارے دوست اور بطور کالم نگار پیٹی بند بھائی فاروق عالم انصاری بالآخر تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔ فاروق عالم سے ہمارا تعارف علامہ عزیز انصاری مرحوم کے صاحبزادے کی حیثیت سے ہوا تھا۔ عزیز انصاری ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ یاروں کے یار--- اول و آخر مسلم لیگی ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع المشرب شخص تھے۔ سبھی جماعتیں انہیں اپنا سمجھتیں البتہ پیپلزپارٹی سے ان کی کبھی نہ بنی۔ کشادہ دل اور کشادہ ظرف آدمی کی جیب کبھی تنگ بھی ہوتی تو ہاتھ اور دل کشادہ ہی رہتا۔ مجلس آرائی ان کے مشغلوں میں خاص تھی۔ کسی بھی محفل میں پل بھر میں مرکز نگاہ بن جاتے۔ مکتب کی روایتی تعلیم کے اعتبار سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے البتہ دنیا کے مشاہدے اور مطالعے کی خاص صلاحیت رکھتے تھے۔ ”علامہ“ انہیں آغا شورش کاشمیری نے بنایا۔ شاید علامہ احسان الٰہی ظہیر کو”چڑانے“ کے لئے جو 60ءکی دہائی کے اواخر میں مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آئے تو حافظ احسان الٰہی ظہیر تھے کچھ عرصہ بعد ”علامہ“ ہو گئے تو آغا نے عزیز انصاری کو بھی ”علامہ“ بنا دیا لیکن بعض لوگ کسی کے بنائے نہیں بنتے بلکہ خود بالائی منزلیں طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ آپ انہیں”خود ساختہ“ بھی کہہ سکتے ہیں ایک دور تھا کہ علامہ ہونا بہت بڑی بات ہوتی تھی۔ علم و فضل کا نہایت بلند مرتبہ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں۔ الفاظ کے معانی و مفاہیم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ طبائع بھی بے قرار ہو تی ہیں
ہر لحظہ نئی برق، نیا ذوقِ تجلی
اللہ کرے، مرحلہ¿ شوق نہ ہو طے
چنانچہ وہ فضیلت کی منازل طے کرتے ہوئے علامہ سے پروفیسر، پروفیسر اور ڈاکٹر اور ڈاکٹر سے شیخ الاسلام کے مرتبہ بلند تک پہنچ جاتے ہیں۔
قارئین سے معذرت کے فاروق عالم انصاری سے شروع ہونے والی بات کسی اور طرف نکل گئی۔ علامہ عزیز انصاری کے صاحبزادے کی حیثیت سے ابتدائی تعارف پانے والے فاروق عالم نے ایک اچھے کالم نگار کے طور پر اپنی ذاتی شناخت بھی بنا لی۔
سیاسی شناخت کیلئے ان دنوں عمران خان کی تحریک انصاف کافی سہولت مہیا کر رہی ہے جو کسی اور جماعت میں گنجائش نہیں پاتے۔ ان کےلئے تحریک انصاف موجود ہے۔ اس وقت ہمیں کپتان کے گرد و پیش جو لوگ نظر آتے ہیں۔ یا تحریک انصاف میں جن کی شمولیت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی اولین ترجیح مسلم لیگ(ن) تھی۔ تحریک انصاف کا ایک لاہوری لیڈر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد 2007ءمیں لندن جا کر مسلم لیگ میں شمولیت کےلئے میاں صاحب کی اشیر باد حاصل کر آیا تھا۔ واپس آ کر اس نے باقاعدہ اعلان کےلئے پریس کانفرنس بھی بلا لی تھی کہ اس کے علاقے کے دیرینہ مسلم لیگی کارکنوں نے میاں صاحب تک اپنا احتجاج پہنچا دیا جو مشرف کا دور ابتلا بڑی ہمت سے کاٹ چکے تھے اور اب ڈکٹیٹر کا چل چلاﺅ قریب نظر آ رہا تھا ۔ میاں صاحب سے ان کا کہنا تھا۔ آپ کو دودھ پینے والا مجنوں مبارک ہو۔ ہم خون دینے والے مجنوں پارٹی نہیں چھوڑیں گے لیکن گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ پریس کانفرنس ملتوی ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد ہمارے اس دوست نے ”دونوں کو یکساں برائی“ قرار دیتے ہوئے کپتان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کر لی۔
گزشتہ شام ڈاکٹر اویس فاروقی کے ہاں عید ملن مختلف سیاسی پسند، ناپسند رکھنے والے احباب کا اجتماع تھا۔ تحریک انصاف کے ہمدردوں کو گلہ تھا کہ میڈیا کپتان سے انصاف نہیں کر رہا۔ ہمارا جواب تھا کہ کپتان کی شاید ہی کوئی قابل ذکر سرگرمی ہو جسے میڈیا کور نہ کرتا ہو۔
13اگست کا اسلام آباد دھرنا اگر ”پراپر کوریج“ نہ پا سکا تو اس کا سبب یوم آزادی کے حوالے سے ہونے والی ملک گیر سرگرمیاں تھیں۔ کپتان سے اس ”ناانصافی“ کی تلافی بعض چینلز نے اگلے دنوں میں اپنے ٹاک شوز میں اس دھرنے کی بھرپور فوٹیج دکھا کر دی اور ٹاک شوز کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک عرصے سے یہاں سب سے زیادہ کوریج اگر کسی کو مل رہی ہے تو کپتان کو یا شیخ رشید کو۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چینل سے دوسر ے پر سوئچ اوور کریں تو وہاں بھی یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک نظر آتا ہے بلکہ تیسرے، چوتھے چینل پر بھی اگر آپ کو یہی دونوں نظر آئیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ کپتان سے مفت ہمدردی رکھنے والوں کا یہ مشورہ بھی قابل توجہ ہے کہ میڈیا پر ”اوور ایکسپوژر“ بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کپتان کو کوئی نئی بات بھی کرنی چاہئے، کوئی اپنی بات بھی.... ایک نئی بات انہوں نے آج کی ہے25 اکتوبر کا جلسہ ثابت کر دے گا کہ لاہور کس کا ہے۔ اب25 اکتوبر تک انتظار کرنا پڑے گا۔شاید وہاں کوئی اور نئی بات ہو جائے یا یہ پرانی ہو جائے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔
یہاں صورت حال یہ ہے کہ اینکر پرسن کسی بھی مسئلے پر سوال کرے، کراچی سے بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات تک، ڈینگی سے سیلاب کے مسائل تک کپتان کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے، ”دونوں اندر سے ایک ہیں، دونوں کے بچے اور اثاثے بیرون ملک ہیں، دونوں میں نورا کشتی ہو رہی ہے“۔ کپتان کو اصلاح احوال کیلئے اپنا پروگرام بھی دینا چاہئے اور اس پر عملدرآمد کےلئے اپنی ٹیم بھی۔ برادرم ہارون الرشید دوسروں کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ زندگی دوسروں کے عیوب پر نہیں ۔اپنے محاسن پر بسر ہوتی ہے۔ انہیں یہ مشورہ کپتان کو بھی دینا چاہئے۔ ا ویس فاروقی کی عید ملن میں ایک اور سوال بھی غور طلب تھا کہ تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں کپتان کی رفاقت اختیار کرنے والی نمایاں شخصیات میں سے اب کتنی ان کے ساتھ ہیں؟
بہرحال اپنے بھائی فاروق عالم انصاری کی تحریک انصاف میں شمولیت پر ہم ان کےلئے نیک خواہشات کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔ وہ جہاں رہیں۔ ر اضی رہیں.... لیکن یہ وہ والی بات نہیں۔ ایک شخص کنوئیں میں گر گیا۔ ایک نشئی کا ادھر سے گزر ہوا۔ بچاﺅ بچاﺅ کی آواز سن کر پوچھا۔ کہاں ہو؟.... کنوئیں میں! ٹھیک ہے، جہاں رہو، راضی رہو۔
ہمارے دوست اور بطور کالم نگار پیٹی بند بھائی فاروق عالم انصاری بالآخر تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔ فاروق عالم سے ہمارا تعارف علامہ عزیز انصاری مرحوم کے صاحبزادے کی حیثیت سے ہوا تھا۔ عزیز انصاری ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ یاروں کے یار--- اول و آخر مسلم لیگی ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع المشرب شخص تھے۔ سبھی جماعتیں انہیں اپنا سمجھتیں البتہ پیپلزپارٹی سے ان کی کبھی نہ بنی۔ کشادہ دل اور کشادہ ظرف آدمی کی جیب کبھی تنگ بھی ہوتی تو ہاتھ اور دل کشادہ ہی رہتا۔ مجلس آرائی ان کے مشغلوں میں خاص تھی۔ کسی بھی محفل میں پل بھر میں مرکز نگاہ بن جاتے۔ مکتب کی روایتی تعلیم کے اعتبار سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے البتہ دنیا کے مشاہدے اور مطالعے کی خاص صلاحیت رکھتے تھے۔ ”علامہ“ انہیں آغا شورش کاشمیری نے بنایا۔ شاید علامہ احسان الٰہی ظہیر کو”چڑانے“ کے لئے جو 60ءکی دہائی کے اواخر میں مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آئے تو حافظ احسان الٰہی ظہیر تھے کچھ عرصہ بعد ”علامہ“ ہو گئے تو آغا نے عزیز انصاری کو بھی ”علامہ“ بنا دیا لیکن بعض لوگ کسی کے بنائے نہیں بنتے بلکہ خود بالائی منزلیں طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ آپ انہیں”خود ساختہ“ بھی کہہ سکتے ہیں ایک دور تھا کہ علامہ ہونا بہت بڑی بات ہوتی تھی۔ علم و فضل کا نہایت بلند مرتبہ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں۔ الفاظ کے معانی و مفاہیم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ طبائع بھی بے قرار ہو تی ہیں
ہر لحظہ نئی برق، نیا ذوقِ تجلی
اللہ کرے، مرحلہ¿ شوق نہ ہو طے
چنانچہ وہ فضیلت کی منازل طے کرتے ہوئے علامہ سے پروفیسر، پروفیسر اور ڈاکٹر اور ڈاکٹر سے شیخ الاسلام کے مرتبہ بلند تک پہنچ جاتے ہیں۔
قارئین سے معذرت کے فاروق عالم انصاری سے شروع ہونے والی بات کسی اور طرف نکل گئی۔ علامہ عزیز انصاری کے صاحبزادے کی حیثیت سے ابتدائی تعارف پانے والے فاروق عالم نے ایک اچھے کالم نگار کے طور پر اپنی ذاتی شناخت بھی بنا لی۔
سیاسی شناخت کیلئے ان دنوں عمران خان کی تحریک انصاف کافی سہولت مہیا کر رہی ہے جو کسی اور جماعت میں گنجائش نہیں پاتے۔ ان کےلئے تحریک انصاف موجود ہے۔ اس وقت ہمیں کپتان کے گرد و پیش جو لوگ نظر آتے ہیں۔ یا تحریک انصاف میں جن کی شمولیت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی اولین ترجیح مسلم لیگ(ن) تھی۔ تحریک انصاف کا ایک لاہوری لیڈر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد 2007ءمیں لندن جا کر مسلم لیگ میں شمولیت کےلئے میاں صاحب کی اشیر باد حاصل کر آیا تھا۔ واپس آ کر اس نے باقاعدہ اعلان کےلئے پریس کانفرنس بھی بلا لی تھی کہ اس کے علاقے کے دیرینہ مسلم لیگی کارکنوں نے میاں صاحب تک اپنا احتجاج پہنچا دیا جو مشرف کا دور ابتلا بڑی ہمت سے کاٹ چکے تھے اور اب ڈکٹیٹر کا چل چلاﺅ قریب نظر آ رہا تھا ۔ میاں صاحب سے ان کا کہنا تھا۔ آپ کو دودھ پینے والا مجنوں مبارک ہو۔ ہم خون دینے والے مجنوں پارٹی نہیں چھوڑیں گے لیکن گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ پریس کانفرنس ملتوی ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد ہمارے اس دوست نے ”دونوں کو یکساں برائی“ قرار دیتے ہوئے کپتان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کر لی۔
گزشتہ شام ڈاکٹر اویس فاروقی کے ہاں عید ملن مختلف سیاسی پسند، ناپسند رکھنے والے احباب کا اجتماع تھا۔ تحریک انصاف کے ہمدردوں کو گلہ تھا کہ میڈیا کپتان سے انصاف نہیں کر رہا۔ ہمارا جواب تھا کہ کپتان کی شاید ہی کوئی قابل ذکر سرگرمی ہو جسے میڈیا کور نہ کرتا ہو۔
13اگست کا اسلام آباد دھرنا اگر ”پراپر کوریج“ نہ پا سکا تو اس کا سبب یوم آزادی کے حوالے سے ہونے والی ملک گیر سرگرمیاں تھیں۔ کپتان سے اس ”ناانصافی“ کی تلافی بعض چینلز نے اگلے دنوں میں اپنے ٹاک شوز میں اس دھرنے کی بھرپور فوٹیج دکھا کر دی اور ٹاک شوز کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک عرصے سے یہاں سب سے زیادہ کوریج اگر کسی کو مل رہی ہے تو کپتان کو یا شیخ رشید کو۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چینل سے دوسر ے پر سوئچ اوور کریں تو وہاں بھی یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک نظر آتا ہے بلکہ تیسرے، چوتھے چینل پر بھی اگر آپ کو یہی دونوں نظر آئیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ کپتان سے مفت ہمدردی رکھنے والوں کا یہ مشورہ بھی قابل توجہ ہے کہ میڈیا پر ”اوور ایکسپوژر“ بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کپتان کو کوئی نئی بات بھی کرنی چاہئے، کوئی اپنی بات بھی.... ایک نئی بات انہوں نے آج کی ہے25 اکتوبر کا جلسہ ثابت کر دے گا کہ لاہور کس کا ہے۔ اب25 اکتوبر تک انتظار کرنا پڑے گا۔شاید وہاں کوئی اور نئی بات ہو جائے یا یہ پرانی ہو جائے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔
یہاں صورت حال یہ ہے کہ اینکر پرسن کسی بھی مسئلے پر سوال کرے، کراچی سے بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات تک، ڈینگی سے سیلاب کے مسائل تک کپتان کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے، ”دونوں اندر سے ایک ہیں، دونوں کے بچے اور اثاثے بیرون ملک ہیں، دونوں میں نورا کشتی ہو رہی ہے“۔ کپتان کو اصلاح احوال کیلئے اپنا پروگرام بھی دینا چاہئے اور اس پر عملدرآمد کےلئے اپنی ٹیم بھی۔ برادرم ہارون الرشید دوسروں کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ زندگی دوسروں کے عیوب پر نہیں ۔اپنے محاسن پر بسر ہوتی ہے۔ انہیں یہ مشورہ کپتان کو بھی دینا چاہئے۔ ا ویس فاروقی کی عید ملن میں ایک اور سوال بھی غور طلب تھا کہ تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں کپتان کی رفاقت اختیار کرنے والی نمایاں شخصیات میں سے اب کتنی ان کے ساتھ ہیں؟
بہرحال اپنے بھائی فاروق عالم انصاری کی تحریک انصاف میں شمولیت پر ہم ان کےلئے نیک خواہشات کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔ وہ جہاں رہیں۔ ر اضی رہیں.... لیکن یہ وہ والی بات نہیں۔ ایک شخص کنوئیں میں گر گیا۔ ایک نشئی کا ادھر سے گزر ہوا۔ بچاﺅ بچاﺅ کی آواز سن کر پوچھا۔ کہاں ہو؟.... کنوئیں میں! ٹھیک ہے، جہاں رہو، راضی رہو۔