عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ سیاست عبادت کا نام ہے مگر ہمارے ہاں یہ یکسر طور پر صرف مفادات کا نام بن کر رہ گیا ہے۔ ہم ہر وقت الاپ تو جمہوریت کا الاپتے ہیں مگر ذاتی اور اجتماعی طور پر ہماری سوچ اور طرزِ عمل بالکل غیر جمہوری ہے۔ اسی طرزِ عمل کی بنا پر غیر جمہوری قوتوں کو اس بات کا جواز مل جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کی بساط لپیٹیں اور اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ جب بھی کہ ہمارے ہاں حزبِ اختلاف زیادہ طور پر مخالفت برائے مخالفت کی سیاست ہی کرتی ہے اور پھر جب خود حکومت میں آتی ہے تو اسی طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باوجود حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا حزبِ اختلاف کے ایمان کا جیسے حصہ بن چْکا ہے نتیجتاً ہر جائز اختلاف اور تنقید بھی بے اثر ہو جاتی ہے اور اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومت کو بھی عوامی بہبود کے بہت سے اقدامات کو عملاً شروع کرنے سے پہلے عوامی رائے لینا چاہیے تا کہ عوام کو اصل حقیقت کا پتہ چل سکے اور مفاد پرست عناصر اْنہیں گمراہ نہ کر سکیں۔ عوام کی شمولیت سے نہ صرف حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ منفی سیاست کرنیوالے بھی ناکام ہونگے۔ آجکل جن ایشوز پر منفی سیاست ہو رہی ہے اْن میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اورٹیکس جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اگر ان تمام اقدامات کا علیحدہ علیحدہ بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضع ہو جاتی ہے کہ ان پر احتجاج عوام کی فلاح کی بجائے اْنہیں اْکسا کر اپنی سیاست کو پروان چڑھانا ہے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ ہمارا ملک شدید بد انتظامی اور مالی بحران کا شکار ہے جس کی بدولت قومی خزانے کو ہر ماہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں کی گئیں مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ آج اس معاملے پر سب سے زیادہ شور شرابا کرنیوالی پارٹیاں بھی اپنے دورمیں ان مسائل کے حل میںناکام رہی ہیں۔ ان حالات میں اداروں کو مل بیٹھ کر بہترین حکمت عملی اپنانی اور اس پر عملدرآمدکویقینی بنانا چاہیے۔ کیونکہ دْنیا بھر میں بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں خسارے میں جانیوالی معیشت بہترین حکمت عملی ہی سے درست راہ پر گامزن ہوئی۔حکومت کی جانب سے کسی بھی ادارے کے ملازمین کے تحفظ کی یقین دہانیوں کے بعدعوام بدحالی سے بچ سکتی ہے۔ عوام سیاستدانوں کے سیاسی مقاصد اور حزب اختلاف کی سازشوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ اب عوام کو اندھیرے میں رکھنا اتنا آسان نہیں رہا۔ اگر واقعی اْن لوگوں کو جو آج عوام کے ہمدرد بن کر مختلف ترقیاتی منصوبوں پرواویلا کررہے ہیں اس وقت وہ کیوں خاموش تھے جب ان کی اپنی حکومت تھی۔ جہاں تک بین الاقوامی مارکیٹ کا تعلق ہے تو بے شک قیمتیں انتہائی کم سطح پر آچْکی ہیں مگر ہر ملک اپنے حالات اور معیشت کی صورتحال کے مطابق کمی بیشی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات تمام ہمسایہ ممالک سے کم ہیں حالانکہ وہ بھی تو تیل بین الاقوامی منڈی سے ہی خریدتے ہیں مزید برآں ایک ایسا ملک جہاں لوگ ٹیکس دینے سے بھاگتے ہوں وہاں حکومتوں کیلئے اس طرح کے لازمی ٹیکس لگانا ایک مجبوری ہوتی ہے اور ایسا ماضی میں بھی کیا جاتا رہا ہے۔ رہا سوال اوگرا کی سفارشات کا تو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کئی مواقع پر اوگرا قیمتیں بڑھانے کی بھی سفارش کرتا ہے مگر حکومت نہیں بڑھاتی اْس وقت تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اس احتجاج کا مقصد صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ حکومت تک نہ پہنچنے دیناہے۔ ہمیشہ سے حکومتیں ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے کیلئے مختلف سکیمیں سامنے لاتی رہی ہیں یہ دوسری بات ہے کہ اْن کے صحیح فوائد کم ہی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے مگر خود ٹیکس نہ دینے والے بڑھ چڑھ کر اسکی مخالفت کر رہے ہیں۔ جب تاجر احتجاج کر رہے تھے تو اْنکے ساتھ بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا گیا اب حکومت نے مذاکرات کے ذریعے اْنہیں ٹیکس نیٹ ورک میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسرے طریقے سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتِحال سے یقینا غیر یقینی کی صورتِحال میں اضافہ ہو گا جس سے حکومت تو کمزور ہو گی ہی مگر اصل نقصان تو پاکستان کا ہو گا۔ اس منفی طرز سیاست سے ہمیں بعض رہنا چاہیے۔ یہ منافقت، جھوٹ اور مفاد پرستی کی انتہا نہیں تو اور کیاہے۔حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں آج اختلافات اور احتجاج کرنیوالوں کو کل خود بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بلی چوہے کا کھیل آخر کب ختم ہو گا اور کب ہم بحیثیت مجموعی ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کرینگے۔ منفی سیاست کرنے والے پاکستان کی بنیادوں کیلئے دیمک کا کردار ادا کرنے سے باز آجائیں کہ جس طرح دہشت گردوں کیلئے اللہ کی مدد سے جنرل قمرجاویدباجوہ جیسا سپہ سالار افواج پاکستان کو ملاہے اسی طرح انشاء اللہ ان مفاد پرست منفی سیاست کرکے عوام اور ملک کی سالمیت کے درپہ ہونیوالوں کیلئے بھی ہم سے ہی کوئی اللہ کی طرف سے قائد بن کر ابھرے گا اور ان سے ملک کو پاک کرنے کیلئے ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ضرب آہن شروع کردیگا۔ انشاء اللہ۔عوام کواپنے زور بازو پر اتنااعتماد ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں ہمت نہیں ہاریں گے۔نظریہ پاکستان کی حفاظت عسکری طاقتوں کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی ہر میدان میں کی ہے۔آج بھی ہمارے جوان اور افسر بڑی دلیری اور ہمت سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان اس وطن کے نام کرتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024