مشہورمقولہ ہے کہ سفر وسیلہ ظفرہے، اور یہ ہے بھی۔ مجھے تو ابن بطوطہ کی بہت یاد آئی ، کہ زمانہ قدیم میں اتنے دشوار گزار راستوں سے وہ اعلی حضرت کیسے گزرے ہوں گے۔ یہ ایک علیحدہ سٹوری ہے قارئین ، راقم کو بذریہ سڑک گوجرانوالہ شہر سے قلعہ میاں سنگھ جانا تھا ۔گوجرانوالہ سے قلعہ میاں سنگھ براستہ سڑک صرف دس بارہ کلو میٹر دورہے۔ مجھے تو آج سال ٹونٹی ٹونٹی میںبھی یہ دس کلو میٹر کا سفر، بھی بے ہنگھم ٹریفک کے شور بے کراں، اور جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سڑک،اور کھڈے دیکھ کر ایسے لگا کہ کہیں گاڑی اوپر یا نیچے ہونے میں جان بسمل کہیں ان ہچکولوںکی ہی نذرنہ ہو جائے ، یہ راستہ پر خطر لگا۔ کہیں ایک طرف گندے پانی سے سڑک بند ہے ، تو دوسری طرف آوارہ ،گندے،بیمار کتوں،کی بہتات، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بھی ۔ راقم سوچ میں پڑ گیا، آج سے چند سال پہلے تویہ معمولی سا فاصلہ پل بھر میں گزر جایاکرتاتھا ، شائد یہ نیا پاکستان ہے ،ہر طرف تبدیلی نظر آرہی ہے عام لوگ ٹریفک کے انتظار میں کافی دیر کھڑے رہتے نظر آئے اور پرانے زمانے کی طرح، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے اور وہ بھی گرد میں اٹے ہوئے،ویسے تو آج گوجرانوالہ شہر میں بھی ہر گلی یا چوک کی نکڑ پر ، حتیٰ کہ میرے کلینک کے باہر جو کہ شہر کے وسط میں ہے اور روزانہ اسی علاقے کے ایم این اے صاحب اسی کچرے کے ڈھیر کے پاس سے کسی بے پرواہ حسینہ کی طرح گزر جاتے ہیں ۔نہ رہائشیوں کو اسکا احساس ہے اور نہ ہی انصافی حکومت کو،حالانکہ کہ علی اشرف جو جی ڈی اے ،گوجرانوالہ کے فعال ، نوجوان ڈائریکٹر کے طور پر مشہور ہیں اور انکے بھائی عمر اشرف جو گوجرانوالہ چیمبر کے صدر منتخب ہوے ہیں، سے لوگوں کو بہت توقعات ہیں لیکن اروندھتی رائے ٹھیک ہی کہتی ہے کہ آپ جتنے مرضی ا لیکشن کروالیں، جمہوریت کا دعوی کریں ،حضرت انسان کی اوقات ،اشرافیہ کے سامنے بکائو مال سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ اس لئے کارل مارکس کا یہ کہا ٹھیک لگا کہ وہ لوگ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو، اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو،وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے ۔کمزور اور غریب چاہے کسی بھی ملک وقوم کے ہوں،وہ فلائڈ جارج کی طرح ، آئی کانٹ بریتھ کہتے دنیا سے چلے جاتے ہیں،یہ الگ بات بلیک لائیوز میٹر امریکایا افریقہ اورمسلم لائوز میٹر فلسطین سے کشمیر تک کہ صرف نعرے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ روسی کمیونزم بظاہر شکست سے دوچار ہے اور اکثر مسلم ممالک عہد حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہو رہے، لیکن چینی کمیونزم ، ڈینگ سیاو پنگ کے ارتقائی مارکیٹ اکانومی ، ٹیکنالوجی اوور آئیڈیالوجی کے فلسفہ کے تحت عمل پیرا ہو کر ،امریکی کیپٹل ازم کو دنیا میں چیلنج کرتا ہوا نظرآتا ہے اور کنٹرولڈ اکانومی اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی یا پرولتاری ڈکٹیٹرشپ کا کامیاب نمونہ پیش کر رہا ہے اور اسلامی جمہوری ایران کو بھی اپنی معیشت ، سالمیت کو سہارا دینے کے لئے چین کے ساتھ تزویراتی و معاشی تعاون کا باہمی معاہدہ کرنا پڑا تا کہ امریکی اقتصادی جارحیت کا مقابلہ کر سکے۔کیوںکہ امریکی کپیٹلزم بھی روسی کمیونزم کی شکست کے بعد اسلامی ایران پر پابندیوں کی شکل میں دہشت گردی کی جنگ میں ، ملوث ہو کر اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے چین کے ساتھ محاذآرائی کر کے ایک نیامحاذ کھولنے سے گریزاں ہے ۔
قارئین، کرونا سے سپر طاقتوں کی کمزوریاں واضح ہو رہی ہیں، امریکی مصنفہ نینسی ساڈیبرگ نے سپر طاقتوں کی میتھ یا افسانوی طاقت کو زیر بحث لاتے ہوے انکی حدود پربحث کی ہے۔ جولئئیس سیزر کے قتل کے بعد ، چند سالوں میں رومن سلطنت کاغذ کے آوارہ ٹکڑوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی تھی سکندر اعظم اور دارا کے فوری بعد ان کے اور انکی سپر طاقتوں کے نام ونشان مٹ گئے یہی تاریخ کا سبق ہے اور قرآن میں ہے کہ ہم دنوں اور سالوں کو قوموں میں بدلتے ہیںاور واقعی خدائی طاقت ہی لافانی ہے۔راقم کو یاد آیا آج سے چند ہی سال پہلے کارپویشن کی طرف سے جگہ جگہ پانی چھڑکائو کرنے والی گاڑیاں گرد بٹھاتی گزر جاتی تھیں، اسی سڑک پر دو رویہ درختوںکے جھنڈ قطار اندر قطار نظر آتے تھے اور قدرت کا حسین نظارہ ورڈزورتھ کی زبانی پیش کرتے تھے اور آج صرف ٹنڈ منڈ پیڑ باقی ہیں۔ قارئین ، ایسے ہی قطار اندر قطار درختوں کی قطاریں کبھی گوجرانوالہ سے لاہور تک دونوں اطراف بھی دل لبھایا کرتی تھیں ۔آج مہنگائی کے کچوکے اور عمران خان کا شوگر مافیہ ، کو پکڑنے کا دعوی ۔ خیر بات چلتی ہے تو ہونٹوں سے زبان تک پہنچ جاتی ہے تو پھردور تلک جاتی ہے اور جناب جہانگیر ترین چپکے سے باہر قدم رنجہ فرما اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی یہ کیسا تضاد ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024