پاکستان کے اندرونی مسائل جیسے بھی ہوں لیکن قومی مسائل پر سیاست دانوں کو پوائنٹ سکورنگ کرنا زیب نہیں دیتا۔ ماضی میں بھی یہی روایت رہی ہے اور آج بھی اس حوالے سے کوئی مثبت چیز نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں کی اہم شخصیات اور ان کے ساتھی حساس نوعیت کے قومی معاملات میں بھی منفی بیان بازی سے گریز نہیں کرتے۔ ملک میں قومی ایشوز پر اتفاق رائے نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر دور میں سیاست دانوں نے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی ہے یا پھر ذاتی ضروریات کو مدنظر رکھ کر موقف اختیار کیا ہے۔ آج بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ مسئلہ کشمیر پر بھی منفی سیاست ہو رہی ہے، منفی سیاسی بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ایسے بیانات سے حکومت کو نقصاں پہنچانے یا نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس طرز عمل کا اصل نقصان کشمیر اور سب سے زیادہ تکلیف کشمیریوں کو ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات اور اور وقتی فائدے کے لیے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی کے مطابق کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کرنا پڑے گا۔
سراج الحق کی جہاد والی بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور قارئین نوائے وقت گواہ ہیں کہ ہم شروع دن سے اسی فلسفے کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے فیصلہ کن جنگ ضروری ہے۔ جنگ کے بغیر کشمیر میں آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ حقیقت ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ کشمیر پر کسی کی ثالثی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تیسرے فریق کے آنے سے مسئلہ اور پیچیدہ ہو جائے گا۔ جہاں تک تعلق اس بات کا ہے کہ وزیراعظم اے سی سے نہیں نکل رہے یہ بیان مکمل طور پر سیاسی اور انتشار پھیلانے والا ہے۔ وزیراعظم نے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے بعد اب تک کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اٹھایا ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے ظالمانہ اقدامات کو عالمی طاقتوں کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ عمران خان نے تو اسے مذاہب کی جنگ بھی قرار دیا ہے انہوں نے دورہ امریکہ کے دوران کسی بھی فورم پر کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ واضح اور دو ٹوک انداز میں کشمیریوں کے حقوق کی ترجمانی کی ہے۔اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ ہم ایک اللہ کے ماننے والے ہیں ہماری بات نہیں سنی جاتی، کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا اور ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا جاتا تو پھر ہم لڑائی پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو نریندرا مودی کو ہٹلر سے ملا دیا ہے انہوں نے ہر فورم پر مودی کو ہٹلر کا پیرو کار قرار دیا ہے انہوں نے آر ایس ایس کے تعصبانہ نظریات کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے عمران خان کہیں خوف یا مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی اس بہادری اور مضبوط موقف کی گواہی تو خود کشمیری بھی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کے بعد کشمیر میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے، محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری بات کسی نے کی ہے تو صرف عمران خان نے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کاز کے لیے جماعت اسلامی کا بہت اچھا کردار رہا ہے لیکن اس وقت عمران خان کو ہدف تنقید بنانا مناسب نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی ٹیم نے بھی دن رات محنت کی ہے۔ آج امریکہ سمیت دنیا بھر سے کشمیریوں کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں تو اس کا کریڈٹ وزیر خارجہ شاہ محمود کو بھی جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پچاس سال بعد مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا ہے، یورپی یونین میں کشمیر پر بحث ہو رہی ہے۔ امریکی کانگریس اراکین کرفیو کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے پیچھے کوئی تو ہے۔ کیا کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے، کیا کشمیر کا مسئلہ ہم سب کا نہیں ہے، کیا کشمیریوں کا مذہبی رشتہ اور تعلق صرف عمران خان یا تحریک انصاف سے ہے، کیا ن لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی جماعت سمیت سب جماعتوں کے بڑوں کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک طرف کشمیر میں معصوموں کا قتل عام ہو رہا ہے تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن اپنی سیاست بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیا مولانا کو یہ زیب دیتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ انہیں تو سب سے آگے بڑھ کر مظلوم کشمیریوں کے لیے بات کرنی چاہیے، انہیں تو نہتے کشمیریوں کا سفیر بننا چاہیے۔ اس اہم وقت میں وہ کشمیریوں کے بجائے کسی اور کے سفیر بنے ہوئے ہیں۔ مولانا وفاق المدارس کے پلیٹ فارم کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر کے قوم کی کون سی خدمت کر رہے ہیں۔ ان بچوں کو اپنی سیاست بچانے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کیا وفاق المدارس کے بچوں کا حق نہیں ہے کہ انہیں جدید تعلیم دی جائے۔ کیا وفاق المدارس کے بچوں کا حق نہیں کہ وہ دین کے ساتھ دنیاوی علوم پر بھی دسترس حاصل کریں۔
کبھی مذہب کے نام پر سیاست، کبھی صوبے کے نام پر سیاست، کبھی زبان کے نام پر سیاست، کبھی طرز حکومت کے نام پر سیاست، کاش فضل الرحمن کبھی اس ملک اور اس کی عوام کے نام پر بھی سیاست کریں، کبھی تو کریں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024