تاجروں کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقات پر چیئرمین نیب کی وضاحت
چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اب نیب کا کوئی افسر کسی تاجر کو کال نہیں کرے گا اور آج کے بعد نیب کی جانب سے ٹیکس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ٹیکس ریفرنسز واپس لے لئے جائیں گے۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب کی کبھی سعودیہ ماڈل کی خواہش نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ بنک ڈیفالٹ کے معاملہ میں بھی ہمارا کوئی کردار نہیں ہے اور ایسے معاملات کو نیب کی بجائے متعلقہ بنک ، سٹیٹ بنک دیکھے گا۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خاں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے روبرو تاجروں کے نیب سے متعلق تحفظات کو بلاجواز قرار دیا اور کہا کہ جن احباب نے نیب سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا انہوں نے خود نیب کو تعریفی مراسلات لکھے تھے۔
قومی احتساب بیورو کی شکل میں نیب کی ذمہ داریوں والا ادارہ سابق ادوار میں بھی موجود تھا جس کے چیئرمین کا تقرر وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوتا تھا اس طرح یہ ادارہ حکومت مخالف سیاستدانوں اور دوسرے مخالفین کے خلاف انتقامی سیاسی کارروائیوں کے باعث اپنی غیر جانبداری کا تشخص قائم نہ کر پایا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہی 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت نیب کو خودمختار ادارے کی حیثیت دی گئی اور اس کے چیئرمین کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے عمل میں لانا طے پایا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے چیئرمین نیب مقرر ہونے کے بعد عملاً اس ادارے کو خودمختار بنایا اور اس وقت کی حکومت کے اکابرین کے خلاف بھی نیب کے مقدمات میں عملی پیش رفت کی۔ چونکہ موجودہ حکومت کا ایجنڈہ ہی کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل ہے اس لیے ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے نیب اس حکومتی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بنا ہے تاہم اسی وجہ سے یہ خودمختار ادارہ بھی حکومتی مخالفین کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کے الزامات سے نہیں بچ سکا۔ بے شک نیب کا مطمعٔ نظر بے لاگ احتساب ہی ہے مگر چونکہ زیادہ تر اپوزیشن کے لوگ اس کی کارروائیوں کی زد میں آئے اس لئے اپوزیشن کو نیب پر جانبداری کے الزامات کا موقع ملا۔ اس صورتحال میں نیب کا خود کو غیر جانبدار تسلیم کرانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جس کی کارروائیوں سے جس طبقے کے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں وہ نیب پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تاجر برادری کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی بنا ہے جس کے وفد نے پہلے آرمی چیف اور پھر وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران نیب اور ایف بی آر کے اقدامات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تو اس سے نیب پر سیاسی انتقامی کارروائیوں کا تاثر مزید ابھر کر سامنے آیا چنانچہ چیئرمین نیب کو اگلے روز پریس کانفرنس میں نیب کے دائرۂ اختیار کی وضاحت کرنا پڑی جس میں انہوں نے تاجروں اور بنک ڈیفالٹروں کے نیب کے دائرۂ اختیار میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا تو اس سے اس خود مختار ادارے کی کمزوری کا تاثر پیدا ہوا۔ نیب کو بہرصورت اپنی خودمختاری اور غیر جانبداری پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہئے اور جو بھی جرائم نیب کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں ان پر کسی قسم کی مفاہمت یا نیب کی کمزوری کا کوئی تاثر پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے۔ حکو مت تو خود کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے کے تحت نیب کی معاون ہے اس لیے چیئرمین نیب کو بھی اس ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بننا چاہئے۔ نیب کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے مجاز فورم موجود ہیں۔ کسی کو تحفظات ہیں تو ان فورمز سے رجوع کرے۔ اگر نیب کی جانب سے بے بسی کا اظہار کیا جائے گا تو کرپشن فری سوسائٹی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔