دھرنا اور مارچ بے وقت کی راگنی
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی طرف سے دھرنے اور لانگ مارچ میں ساتھ نہ دینے کے فیصلے کے باوجود مولانا فضل الرحمن نے سولو فلائٹ کا اعلان کردیا ۔27 اکتوبر کو لانگ مارچ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں لاکر بٹھانے کا عہد کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک بیٹھے رہیں گے جب تک عمران خا ن حکومت سے استعفیٰ نہیں دیتے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس سوال پر کہ اگر آپ کا لانگ مارچ یا دھرنا کامیاب ہوتا ہے ۔عمران خان استعفیٰ دیتے ہیں یا حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد انتخابات ہوتے ہیں اس میں پھر تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو پھر آپ کیا کریں گے ؟تو مولانا فضل الرحمن نے فرمایا ہم پھر حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے ۔گویا اس وقت تک دھرنا دیتے رہیں گے جب تک انکی اپنی حکومت نہیں آجاتی یا ان کے اُن میں اتحادیوں کی حکومت نہیں آجاتی جو اب حکومت کے خاتمے میں ان کا کھل کر ساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا ایک گروپ کسی بھی طور پر جس کی باگ ڈور میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ہاتھ میں ہے وہ بہر صورت حکومت کے خاتمے کیلئے تہیۂ طوفاں کیئے ہوئے ہے۔ جبکہ دوسرا گروپ جو شہباز شریف کے زیر اثر ہے وہ اس حد تک جانے کیلئے تیار نہیں جس سے حکومت کا خاتمہ ہو اور کوئی مہم جو سامنے آ جائے ،مسلم لیگ ن سسٹم میں بڑی سٹیک ہولڈر ہے،قومی اسمبلی پنجاب اسمبلی اور سینٹ میں اسکی ایک بڑی نمائندگی اور بڑی بڑی پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی انکے پاس ہے۔دوسری طرف پیپلز پارٹی وہ اس لیے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیکر حکومت گرانے کیلئے تیار نہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اگر تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت گرتی ہے تو اس کے بوجھ کے تلے سندھ حکومت بھی دب کے رہ جائیگی۔میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سردست تو یہی نظر آتا ہے کہ ان کا سیاست میں ایک طویل عرصے تک کوئی کردار نہیں ہوگا۔ انکی بلا سے جمہوریت آئے یا جمہوریت جائے ۔ ان کو عمران خان سے شدید نفرت ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کی سیاست کو اس پستی تک لے جانے میں عمران خان ملوث ہیں۔مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کو کس موقع پر لاک ڈاؤن کر رہے ہیں جب حکومت معیشت کو بہتر بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ پی آئی اے کا خسارہ کم ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔سٹیل مل بحال ہورہی ہے۔دنیا میں پاکستان کی روشن تصویر سامنے آرہی ہے خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد پاکستان کی عزت اور وقار عالمی سطح پر بلند ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر میں صورتحال جوں کی توں ہے جو پانچ اگست کے بعد کشمیر کا بھارت کی طرف سے خصوصی سٹیٹس ختم کرنے کے بعد تھی۔ وہاں بدستور دو ماہ کے بعد بھی کرفیو جاری ہے۔ لوگ انسانی حقوق سے محروم ہیں، بنیادی ضرورتوںتک رسائی نہیں ہے ،کوئی موت کی لکیر پار کر جائے تو اس کو دفنانے کیلئے قبرستان تک نہیں لے جایا جاسکتا ۔ سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر قدغن ہے ۔کشمیریوں کی آواز دنیا تک نہیں پہنچ رہی ۔ اس موقع پر پاکستان کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔دنیا میں بھارت کی بربریت اور سفاکیت کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جارہا ہے۔ حالات اب بھی کوئی بہتر نظر نہیں آ رہے ۔ آج ضرورت ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر کشمیر کی آزادی کیلئے کشمیریوں کا ساتھ دے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ ایسے مواقع پر پوری قوم متحد ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن اختلافات کو تیاگ کرحکومت کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتی ہے۔ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمن اس نازک موقع پر حکومت گرانے کیلئے بے چین ہیں جبکہ اتنی ہی بے تاب مسلم لیگ نون بھی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی ہے لیکن وہ اس حد تک جانے کیلئے تیار نہیں جس سے ان کی اپنے اقتدار کی راہ مسدود ہو جائے اور پاؤں کے نیچے سے بٹیرہ نکل جائے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی نواز شریف اور مریم نواز کی طرح کوئی پرواہ نہیں ہے ۔وہ بھی چاہتے ہیں اگر میں نہیں تو اور بھی کوئی کیوں ہو۔ مسلم لیگ نون شہبازی حصہ چاہتا ہے کہ نومبر کے بعد دھرنا دیا جائے۔ نومبر کے بعد کیوں؟۔ نومبر میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاٹیفیکیشن جاری ہونا ہے،ن لیگ شاید کسی معجزے کی منتظر ہے۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ عمران حکومت کا چلتا بننا ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے، تاہم انہوں نے بھی مولانا کا ساتھ دینے سے انکارتے ہوئے کہا ہماری دعائیں مولانا کیساتھ ہیں۔ ایسے لانگ مارچ ساری اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد اوراسٹبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوتے ۔اب اپوزیشن بکھری ہوئی جبکہ پاک فوج حکومت کے شانہ بشانہ ہے لہٰذا سر دست حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔علم الاعداد اور ستاروں کی روشنی میں آئندہ پاکستان، بھارت جنگ کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں۔ 2020ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپوزیشن کی تحریک حکومت کے خلاف کامیاب نہیں ہوگی۔ تاہم میاں نواز شریف آئندہ تین ماہ کے اندر اندر حیران کن حالات کے تحت جیل سے باہر آتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔