پیر‘27؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 8اکتوبر 2018ء
جماعت اسلامی نے کارکنوںکو ضمنی الیکشن میں آزاد کردیا
جماعت اسلامی سے لاکھ اختلاف سہی‘ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ موقع محل کے مطابق سیاسی فیصلے کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرتی۔ یوں ایک جامد مذہبی سیاسی جماعت کی بجائے وہ کسی حد تک آزاد متحرک جماعت محسوس ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی جانتی ہے کہ وہ تنہا کبھی سیاسی طورپر پاکستانی سیاست میں سٹریٹ پاور اور جمعیت کے طلبہ کی حمایت کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لئے وہ ہمیشہ کسی سیاسی اتحاد یا سیاسی حلیف کا سہارا تلاش کرتی ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کا مردہ گھوڑا تیار کیا گیا مگر وہ کاٹھ کا گھوڑا ثابت ہوا۔ اس پر سوار تمام جماعتوں کے قائدین سیاسی میدان میں داخل دفتر ہو گئے۔ اس بات کا احساس جماعت اسلامی کے قائدین کو بھی ہے۔ اس لئے اب ضمنی الیکشن میں انہوں نے اپنے کارکنوں کو آزاد چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہتر ہوتا اگر جماعت اپنے امیدوار بھی کھڑے کرتی مگر شکست کے خوف نے یا لفظ نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ شاید جماعت والے بھول رہے ہیں‘ حق ہارے یا جیتے‘ اسے بہرحال میدان عمل میں اترنا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے آج کل کے مذہبی گروپ ذرا سیانے ہو گئے ہیں۔ وہ پہلے ہار جیت کا زاویہ دیکھتے پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ دنیا نقد ہے اور آخرت ادھار۔
٭…٭…٭…٭
لاڑکانہ کا ایک طالبعلم بھی راتوں رات کروڑ پتی بن گیا
پیسے کی اتنی بے قدری شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہوجتنی اب دیکھنے میں آرہی ہے۔ کیسے کیسے غریب غرباء بھی راتوں رات ارب پتی بن رہے ہیں جنہیں خود یقین نہیں آرہا کہ اب وہ عام نہیں خاص بن چکے ہیں۔ حکومت کو کوئی حق نہیں کہ ایسے غریبوں سے ان کی خوشیاں چھینے۔ اگر رقم کالے دھن کی ہے‘ کسی نے گم نام اکائونٹس میں چھپائی ہے تو یہ اس کا قصور ہے۔ اسے تلاش کیا جائے۔ اگر حکومت نے اپنا پیٹ بھرنا ہی ہے تو برآمد شدہ رقم کا کم از کم 10 فیصد تو اس غریب کو ہی دیا جائے جو راتوں رات امیر بن گیا ہے۔ اب لاڑکانہ کے اس طالبعلم کے نام پر کھولے اکائونٹ میں ایک تجارتی فرم نے 2014-13ء میں اربوں روپے ادھرادھرکئے۔ اس وقت بھی اس کے اکائونٹ میں 3 کروڑ موجود ہیں۔ یہ طالبعلم حیران ہے کہ یہ چمتکار کیسے ہو گیا۔ اب اس ہکا بکا طالبعلم کو ان تین کروڑ میں سے 30 لاکھ دیکر باقی رقم حکومت ضبط کرے۔ اس معاملے میں ڈنڈی نہ مارے۔ کروڑ نہ سہی لاکھ ہی سہی‘ کم از کم طالبعلم اور اس کے گھروالے کچھ دن تو حکومت کو دعائیں دیتے پھریںگے۔ کسی کا کچھ بھی نہیں جائے گا اور حکومت کو دعائیں بھی مفت میں ملیں گی جس کی اسے بہت ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭
شہبازشریف کی گرفتاری پر مسلم لیگ (ن)
کی تنظیم پھر بے اثر ثابت ہوئی
یہ بدقسمتی ہمیشہ سے مسلم لیگ کے ساتھ رہی ہے کہ اس کے حقیقی قائدین کے جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد اسے صرف دودھ پینے والے مجنوں ملے۔ کبھی اسے ڈرائینگ روم پارٹی بنایا گیا‘ کبھی اسے اشرافیہ کی ڈارلنگ‘ پھر اس میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور درجنوں نت نئی مسلم لیگیں سیاسی میدان میں ووٹروں کا لہو گرمانے کیلئے سامنے آئیں مگر پاپا‘ ممی‘ ڈیڈی اور حکومتی چھتریوں تلے بننے والی یہ تمام لیگیں آپس کی کولیگ نکلیں۔ میاں نوازشریف اورشہبازشریف نے اس میں تھوڑی جان ڈالی مگر افسوس وہ بھی ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی بے جان سی محسوس ہونے لگی ہے۔ پہلے میاں نوازشریف اور اب میاں شہبازشریف کی گرفتاری پر صرف اکا دکا چند رکنی کارکنوں کے مظاہرے ہوئے یا چند ایک سیاسی رہنمائوں نے باہر نکل کر احتجاج کیا‘ باقی سب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورتحال میں مبتلا نظر آرہے ہیں کیونکہ آگے کنواں‘ پیچھے کھائی ہے۔ اب وہ حیران ہیں کہ کیا کریں۔ کامل 8 برس دودھ پینے والے یہ مجنوں جب خون دینے کا مرحلہ آیا ہے‘ منہ میں چوسنی لئے بیٹھے ہیں۔ کہاں گئے وہ قدم بڑھائو کے نعرے لگانے والے مفادات کے طالب… اب میاں برادران بھی تنہائی ملنے پر ضرور کچھ نہ کچھ سوچتے ہونگے کہ وہ متوالوں کے پرے کے پرے کہاں گئے جو’’ میاں تیرے جانثار بے شمار‘ بے شمار‘‘ کہتے پھرتے تھے شاید اپنے جو ہر سوشل میڈیا پر دکھا کر حق حمایت ادا کر رہے ہیں کیونکہ ایسے تو پارٹی بھی سوشل میڈیا پارٹی بن سکتی ہے۔ چلو اس طرح حکومت کو بھی تسلی ہو گئی ہوگی کہ ان لیگی تِلوں میں تیل نہیں ورنہ وہ ڈر رہی تھی کہیں پنجاب میں گڑبڑ نہ ہو جائے۔
٭…٭…٭…٭
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ڈیم فنڈز کی کٹوتی کا حکم
اب یہ نادر شاہی حکم جاری کرنے والے کیا جانیں کہ سرکاری ملازمین سے مراد وہ طبقہ لیا جاتا ہے جو خود کو سب سے زیادہ پریشان حال کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ کام چوری کے ماہر مفت میں سرکاری مال کھانے والے ان لوگوںسے ڈیم فنڈ ضرور کاٹیں مگر نچلے درجے کے گریڈ ایک سے چار کے ملازمین پر رحم کھائیں کیونکہ وہ حقیقت میں پریشان حال ہوتے ہیں۔ اس لئے درجہ بندی کی جائے تو بہتر ہے کہ ایک سے چار تک والوں سے صرف 100 روپے اور 5 سے 11 تک 300 پھر 11 تا 16 پانچ سو‘ اس سے اوپر 17‘ 18 سے 1000 روپے اور 19 تا 21 تک والوں سے بے شک 5000روپے کاٹے جائیں۔ یوں حکم پر عمل بھی ہوگا‘ ملازمین بھی مطمئن رہیں گے اور ڈیم کیلئے فنڈز بھی اکٹھے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ منافع بخش حکم یہ بھی دیا جا سکتا ہے ہر دکاندار سے ماہانہ 500 روپے اور شاپنگ مالز اور تجارتی مراکز والے جگ مگ کرتی دکانوں کے مالکان سے 5000 روپے ماہانہ لئے جائیں چاہے وہ اسے غنڈہ ٹیکس ہی کیوں نہ کہیں۔ آخر سب سے زیادہ بجلی یہی جلاتے اور چراتے ہیں۔ ٹیکس بھی چند ہزار روپے سے زیادہ کوئی نہیں دیتا حالانکہ ماہانہ یہ لاکھوں روپے منافع کماتے ہیں اور بھاری بھرکم کرایہ بھی نکالتے ہیں۔ جب وہ یہ دے سکتے ہیں تو ڈیم کیلئے فنڈز کیوں نہیں دے سکتے۔
٭…٭…٭…٭