پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شروعات سے ہی غیر یقینی کی سی صورتحال کا شکار رہے ہیں ۔ ہم نے امداد کے نام پر خوب پیسے بھی کھائے اور ڈُو مور کے نعرے پر سر ِ تسلیم خم بھی رکھا ۔ اس دوران امریکہ نے دوستی دوستی بھی خوب کھیلی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ تعلقات بھی بڑھائے۔
پاکستان نے دہشت گردی اور فتنہ گری کی عالمی جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اپنے قیمتی فوجی جوان اس آگ کو بجھانے میں کھو دیئے۔ اربوں روپے کا قومی خسارہ برداشت کیا ۔پاک فوج نے ملک میں دہشت گردی کے اس ناسور پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے۔ وطن ِ عزیز کے مختلف علاقوں میں مشترکہ کاروائیوں کے ذریعہ دہشت گرد فتنہ کو واصل ِ جہنم کیا گیا۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ سزائے موت کو ایک بار پھر بحال کر دیا گیا جو کہ مشرف دور میں معطل کردی گئی تھی۔ رینجرز اور پولیس نے بھی اس ضمن میں بھرپور ذمہ داری ادا کی جن کی قربانیوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی فورمز پر نمائندگی کرتے ہوئے دہشت گردی کی بھرپور مخالفت اور پیارے ملک پاکستان کا کیس شّد و مَد کے ساتھ لڑا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں ایسی تمام تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جن کا کسی بھی طرح دہشت گردوں سے واسطہ پڑتا ہو۔ ملک بھر میں تمام مدرسوں کو رجسڑڈ کیا گیا اور ان مدرسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر بھی کڑی تحقیقات کرتے ہوئے غیر ضروری اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے مواد کو نہ صرف حذف کیا گیا بلکہ ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے قرار واقعی سزائیں بھی سنائی گئیں۔ دہشت گردی کے معاملات کو دیکھنے کے لئے انسداد ِ دہشت گردی کی مخصوص عدالتیں قائم کی گئیں جو غیر جانبددارانہ فیصلہ کرنے کے اختیارات رکھتی ہیں ۔ سیف سِٹی پراجیکٹ کے ذریعہ پنجاب کے بڑے شہروں میں کیمرے نصب کر کے دہشت گردی جیسے مختلف جرائم پر نظر رکھے جانا حکومت ِ پنجاب کا قابل ِ تحسین اقدام ہے۔ حال ہی میں روس کے ساتھ مُشترکہ فوجی مشقوں میں بھی پوری دنیا کو امن کا اور دہشت گردوں کو سخت پیغام دیا گیا۔
پاکستان ایک خود دار اور خود مختار ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستانی قوم اپنی جانوں کا نذرانہ تو پیش کرسکتی ہے‘ لیکن اپنے دشمنوں کو ان کے عزائم میں کسی طور بھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن اور احترام کا رشتہ چاہتے ہیں‘ لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ دوست ملک چین عالمی سطح پر ہمیشہ ہی امن کے لئے پاکستان کی کاوشوں کی تعریف اور ہمارے مو¿قف کی تائید کرتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی سے جہاں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک بار پھر کمزور ہوئے ہیں وہاں پاکستان کو بھی پوری دنیا میں اپنے مو¿قف کے پر چار کا موقع ملا ہے۔ نئے دوست اور نئی راہیں تراشنے کا سنہری دور اب ہماری مُٹھی میں ہے۔ امریکہ کی ایک بار پھر سے ڈُو مور کی بین کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ سخت پیغام دے کر توڑ دیاکہ اب دُنیا کے ڈُو مور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ امریکہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پاکستان پر دباﺅ ڈال کر وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا اور نہ ہی پاکستان اب اس قسم کے کسی بھی دباﺅ کو برداشت کرنے والا ہے۔ امریکہ پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں لیپٹ چکا ہے ۔ وہ کون سا ملک ہے جہاں امریکہ نے ٹانگ نہ پھنسائی ہو اور جواباً رسوا ئی اس کا مقدر نہ بنی ہو! حالات اب یوں ہیں کہ امریکہ معاشی طور پر بدترین بحران کا شکار ہے۔ ایک دور ہوتا تھا جب امریکہ معاشی طور پر مستحکم ترین ممالک کی صفوں میں بلند مقام رکھتا تھا‘ لیکن اس کی یہی پالیسیاں اسے اس نہج پر لے آئی ہیں۔
پاکستان ہر قسم کے انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتا ہے۔ امریکہ کو چاہئے کہ پہلے وہ اپنے اندرونی معاملات کا حل نکالے۔ خبر یہ ہے کہ امریکی شہر لاس ویگاس میں واقع ایک نجی ہوٹل میں میوزک کنسرٹ جاری تھا کہ اچانک بتیسویں منزل سے نیچے موجود بیس ہزار سے زائد کے ہجوم پر فائرنگ کردی گئی جس کے نتیجے میں ساٹھ کے قریب قیمتی جانوں کا ضیاع اور پانچ سو سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے جس کے فوراً بعد حملہ آور نے بھی خودکشی کر لی۔ پولیس کے مطابق حملہ آور اکیلا اور ذہنی مریض تھا جس کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔ اب امریکی عوام امریکی پالیسیوں سے تنگ آ کر مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور اس قسم کے واقعات مایوسی کے اخراج کا سبب بنتے ہیں۔ درحقیقت حملہ آور سفید فام غیر مسلم امریکی شہری تھا۔ اگر اس کا تعلق کسی بھی طور اسلام کے ساتھ نکل آتا تو یہ واقعہ تاریخی دہشت گردی میں شمار ہوتا اور حملہ آور دہشت گرد قرار دے دیا جاتا۔
اب کچھ اردو ادب کے بارے میں !
سینئر اینکر پرسن، منفرد اسلوب کے نوجوان شاعر اور ناول نگار برادرم وقاص عزیز کی جانب سے چند روز قبل اینکر نامی ناول موصول ہوا۔ یہ ناول شروعات سے اختتام تک تلخ حقائق سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ صحافت کے طالب علموں کے لئے ہر قسم کے ماحول میں ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ اینکر بننے کے خواہشمند اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ۔ اس حساس موضوع کو قلمبند کرنے پر وقاص عزیز مبارکباد کے مستحق ہیں۔